بلاگ
Time 02 اپریل ، 2019

دل کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے۔۔۔

— فائل فوٹو

برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دل ٹوٹنے سے انسان کی جان جا سکتی ہے۔ یہ انکشاف غم غصہ اور خوف کے اثرات پر ہونے والی ایک تحقیق میں کیا گیا ہے۔

ممکن ہے دل ٹوٹنے سے انسان کی جان جا سکتی ہو لیکن ہمارا مشاہدہ تو کہتا ہے کہ بیشتر دل اس وقت ٹوٹتے ہیں جب جان چلی جاتی ہے۔ یقینا دل کے پٹھے مضبوط ہوتےہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ کسی ماہ جبیں کے برسائے بے وفائی کے نشتر کھا کر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوں۔ ایسی پٹھا شکن ماہ جبیں ہرمعاشرے میں پائی جاتی ہے اورعاشق نامعلوم جرم کی سزا پر تڑپ کر پوچھتا رہ جاتا ہے کہ

دل کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے مسکرا کے چل دیے

جاتے جاتے یہ تو بتا جا ہم جئیں گے کس کے لیے

پہلی بات یہ کہ ماہ جبینوں کو کسی کا دل نہیں توڑنا چاہیے اور اگر مجبوراً توڑنا پڑے تو احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرلیا کریں کیونکہ ہاتھ پیر دانت یا سر ٹوٹ جائے تو انسان دیکھ سکتا ہے اور زندہ بھی رہ ہی لیتا ہے مگر دل ٹوٹ جائے تو کچھ دکھائی نہیں دیتا، کچھ سجھائی نہیں دیتا اور انسان جیتے جی مرجاتا ہے اور انہی لوگوں ناسخ نے کیا خوب کہا۔

"مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں"

برادران دل، اگر دل ہی ٹوٹ جائے تو بندہ کیا کر سکتا ہے۔ بہر حال مجھے نہیں معلوم اہل یورپ کے پاس دل ٹوٹنے کے بعد جان دینے کے علاوہ اور کیا متبادل ہے مگر جب ہم وطن عزیز پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسے بہت سے لوگ خصوصا نوجوان دکھائی دیتے ہیں جو دل ٹوٹنے کے نتیجے میں اچھے خاصے شاعر بن چکے ہیں اور ان کی شاعری ایلفی کا کام دے رہی ہے جس سے ان کے ٹوٹے دل کے ٹکڑے جوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی بھلے مانس نے معلوم نہیں سہی کہا یا غلط مگر دل جلے کے انددرونی کہانی ضرور بیان کر دی۔

"عاشق کبھی نقصان میں نہیں رہتا۔ محبت میں کامیابی کی صورت میں زندگی اچھی ہو جاتی ہے اور ناکامی کی صورت میں شاعری اچھی ہو جاتی ہے۔"

یہ تو میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ محبت میں کامیابی کے بعد زندگی اچھی ہو جاتی ہو گی مگر یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ محبت میں ناکامی اچھی شاعری ضرور سکھا جاتی ہے۔

بیشتر دل جلے اور دل ٹوٹے افراد میں جان دینے کی ہمت تو نہیں ہوتی لیکن جان کی یاد میں وہ زندگی بھر دل جلی شاعری کرتے رہتے ہیں جسے سن کر تازہ تازہ دل کی ٹوٹ پھوٹ کے شکار عش عش کرتے ہوئے غش پہ غش کھاتے ہیں ۔ آپ نے بعض شعرا کے کلام میں دل کے جن ٹکڑوں کا ذکر سنا ہے یہ ٹکڑے اسی ٹوٹے ہوئے دل کے ہوتے ہیں جسے کوئی قاتل حسینہ کٹا کٹ بنا کر ہضم کر چکی ہوتی ہے۔

اب یہ نہیں پتہ کہ کتنی غزلیں کہنے کے بعد دل کے کتنے ٹکڑے جڑ جاتے ہیں۔ بہت ممکن ہے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بعد دل کی حالت نارمل ہو جاتی ہو مگر مشاہدہ یہ ہے کہ بعض شعرا کے کئی کئی مجموعہ کلام کی اشاعت کے باوجود ان کا دل ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض شعرا چند اشعار کہہ کر سنبھل جاتے ہیں اور نئے اسمبل شدہ دل کے ساتھ پھر سے مارکیٹ میں آ جاتے ہیں۔ کسی کا دل کسی وقت بھی توڑا جا سکتا ہے مگر بعض مخصوص حالات میں ایسا کرنا بالکل مناسب نہیں ہوتا بطور ثبوت ہم یہ مشہور گانا پیش کر سکتے ہیں ۔۔

"دل توڑ کے مت جایو۔۔۔برسات کا موسم ہے "

پس ثابت ہو ا برسات کے موسم میں دل توڑنے سے ایسے پرہیز کرنا چاہیے جیسے ڈاکٹر حضرات مریضوں کو بیماری کے دوران پرہیز بتاتے ہیں۔

مجھے اہل یورپ پر حیرت ہوتی ہے اور اپنے ہم وطنوں کو دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے ۔ ہمارے نوجوان دل ٹوٹنے کے باوجود جینے کا ہنر جان چکے ہیں۔ لیجیے میری طرف سے مزید ایک مفت مشورہ حاضر خدمت ہے۔ جوں ہی دل ٹوٹنے کا خدشہ ہو تو اس سے قبل کہ آپ کا دل توڑ پھوڑ جائے آپ ایک ہنگامہ برپا کر دیں ورنہ خاموشی سے دل تڑوا لیجیے اور دیکھتے رہیے کہ ٹوٹے دل کا درد کیسا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اول الذکر طریقہ زیادہ مقبول ہے۔ کسی نے ایسے اہم موقع کی غمازی کیا سچائی اور خوب صورت انداز میں کی ہے کہ۔۔۔کہتے ہیں

تجھ میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کر دے

ورنہ ماں باپ جہاں کہتے ہیں شادی کر لے

جہاں تک دل کا تعلق ہے تو دل عورت اور مرد دونوں کے سینے میں دھڑک رہا ہوتا ہے البتہ مرد کے سینے میں دل کے ساتھ بھی بہت کچھ ہوتا ہے جو ایکسرے میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔

سر دست ایک تجویز یہ بھی ہے کہ دل ٹوٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث حفظان صحت کے اصولوں کی طرح حفظان قلب کے اصول بھی وضع کئے جائیں۔ دیکھیے اس سلسلے میں ماہرین کیا کرتے ہیں اگر انھوں نے کچھ نہیں کیا تو ٹوٹے ہوئے دل رکھنے والے افراد کی کیفیت محمد سلیم طاہر کے اس شعر کی مصداق ہو جائے گی کہ

گونجتا رہتا ہے دل خالی مکانوں کی طرح

یاد کرکے میں تجھے روتا ہوں بچوں کی طرح


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔