بلاگ
Time 11 اپریل ، 2019

آج کے چھوٹے چھوٹے سے بڑے بچے

بچے ہمارا مستقبل ہیں ، اس لیے ان کے آج کی طرف توجہ دینا ذیادہ ضروری ہے۔ فوٹو کریڈٹ : سینڈ فار ہیلتھ ۔اوآرجی 

'بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے 'واقعی یہ صرف شعر کا ایک مصرعہ نہیں بلکہ آج کی حقیقت ہے۔ کل کے معصوم چھوٹے چھوٹے بچے آج کے چالاک اور بڑے بچے بن چکے ہیں اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں ان پر بات کرنا بہت ضروری ہے تاکہ یہ بچے اپنی عمر کے مطابق ہی بڑے ہوں۔

سب سے پہلے بات ہو جائے والدین کی ۔ دنیا کے ہر ماں باپ کے نزدیک اس کا بچہ معصوم ہوتا ہے (ان کے بچوں کے بارے میں دوسروں کی رائے کی قطعی اہمیت نہیں ہے)۔

آج کا بچہ بے دھڑک سوال کرتا ہے، بڑے خوش ہو کر کہتے ہیں کہ آج کے دور کا بچہ بلاکا ذہین ہے، خود اعتماد ہے ، تجسس کی وجہ سے سوال زیادہ کرتا ہے۔ اس بات سے ہر ذی شعور اتفاق کرے گا مگر مارے تجسس کے اپنی عمر اور حد بھول جانا کہاں کی ذہانت ہے۔ یہی حدود سکھانا تو تربیت  ہے۔

ویسے بھی متجسس ہو کر زبان کا بے دریغ استعمال نہیں ہونا چاہیے یہ اصول بچوں اور بڑوں دونوں پر لاگو ہوتا ہے۔آج کا بچہ جیسے سوال کرتا ہے ویسے ہی سوچے سمجھے بغیر جواب بھی دیتا ہے۔ اس کی سب بڑی وجہ انٹرنیٹ کا آزادانہ استعمال قرار دیا جا سکتا ہے ۔اب کون سا بچہ ہے جو موبائل فون سے بچا ہوا ہے۔

ادھر اماں باوا مصروف ہوئے اور ادھر بچے کے ہاتھ میں اسے مصروف کرنے کے لیے موبائل تھما دیا۔ چھوٹا بچہ صرف موبائل پر دیکھ کر اپنی سمجھ کے مطابق سیکھتا رہتا ہے جب کہ تھوڑا بڑا بچہ سیکھے ہوئے کو اپنی زبان میں ڈھال کر ، اپنی زبان میں پوسٹ بھی کر دیتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ  بات جتنی بھی اوٹ پٹانگ ہو اس پر لائیک مزے سے ملتے رہتے ہیں۔

دوسری بڑی وجہ نت نئے گیمز کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے ، چاہے وہ آن لائن ہوں یا آف لائن۔ان کھیلوں میں بچوں کی عمر سے بڑے ماحول دکھائے جاتے ہیں جہاں گیمز کے کیریکٹرز بد تہذیبی، سنگدلی کا رویہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ گیمز تو اچھے خاصے سمجھ دار عمر کے لوگوں کی عقل گم کر دیتے ہیں تو یہ چھوٹے کچی سمجھ کے بچے اس سے کیا ہی اخذ کرتے ہوں گے۔ یقین نہ آئے تو انٹر نیٹ ہی کا سہا را لیں اور سرچ کر لیں ،ان گیمز کے منفی نتائج کی کہانیاں بھری پڑی ہیں۔

تیسری اور شاید سب بڑی وجہ تربیت کی کمی ہے۔ در حقیقت یہ کام بھی بڑوں نے انٹر نیٹ کے حوالے کر دیا ہے۔ ہم بھولتے جا رہے ہیں کہ ایک بچے کے لیے گھر پر تربیت کس قدر ضرروی ہوتی ہے۔آج کے والدین بہت مصروف ہیں اس قدر کے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ بچے کے سامنے کیا کہنا ہے کیا نہیں۔ سب سمجھتے ہیں کہ بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے یا وہ انٹر نیٹ پر مصروف ہے تو کر لیجیے جو باتیں کرنی کی ہیں اور جو کرنے کی نہیں بھی ہیں۔

بچہ سب سن رہا ہوتا ہے اور اس کا ننھا ذہن اپنے حساب سے اسے پروسس بھی کر رہا ہوتا ہے۔ بطور استاد ہم نے بچوں کو والدین کی کہی باتوں کو ساتھیوں کے ساتھ منفی انداز میں دہراتے ہوئے سنا ہے۔

والدین ایک بڑی غلطی بچے کے منہ سے بڑی بات سن کر خوش ہونے کی بھی کرتے ہیں اور غلطی پر غلطی اسے سب کے سامنے فخریہ دہرا نے کی بھی کرتے ہیں۔ بچے کو بچے کی عمر کے مطابق بات کرنا سکھانا بھی تربیت کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

نہ صرف والدین بذات خود بلکہ ان بچوں کے ارد گرد کے تمام لوگ بچے کی تربیت کے حصے دار ہوتے ہیں۔ لیکن ارد گرد کے تمام لوگوں کے ہونے یا نہ ہونے کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ ماسی کیا زبان استعمال کرتی ہے ، ڈرائیور کیسے گفتگو کرتا ہے ہمارے لیے اہم ہی نہیں ہیں۔

یہ موضوع کافی بحث طلب ہے ،اس پر بات کرنے کا مقصد کسی پرطعنہ زنی کرنا نہیں بلکہ یہ اجتماعی مسئلہ بن چکا ہے۔ آج کے بچے کی ذہانت کی تعریف کریں ۔ اس کے سوالات کو سراہیں بھی لیکن اسے یہ بھی سکھائیں کہ زبان اور دماغ کا استعمال عمر کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ڈانٹیں نہیں نہ ہی سختی کریں بلکہ بچے کو وقت دیں۔ٹیکنالوجی سے دور نہ کریں بلکہ اس کا استعمال دانش مندی سے کروائیں۔

بڑے تو بڑے ، آج کا بچہ تو ڈپریشن ، اسٹریس اور بوریت جیسے الفاظ سے آشنا ہو چکا ہے۔اسی لیے توآج کا بچہ وقت سے پہلے بڑا ہو گیا۔تھوڑا سا وقت ، تربیت اور ٹیکنالوجی کا صحیح اور بر وقت استعمال آج کے بچے کو چھوٹا ہی رہنے دے گا اور پھر آغاز کا جملہ یوں ہی پڑھا جائے گا کہ

'' آج کے چھوٹے چھوٹے بچے''۔۔۔بہت ہی معصوم بچے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔