ڈومیسٹک کرکٹ میں نیا ماڈل متعارف کرانے کی تیاری، سرفراز مخالف

دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ ماڈل کرکٹ میں انقلاب برپا کردے گا، رمیز راجا اس ماڈل کے سب سے بڑے حامی ہیں— فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ملک میں ڈپارٹمنٹل ٹیموں کا کردار ختم کرکے صوبائی اور ریجن کی کرکٹ کا نیا ماڈل تیار کررہا ہے، دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ ماڈل کرکٹ میں انقلاب برپا کردے گا اور پاکستان سے مزید ورلڈ کلاس کرکٹرز سامنے آئیں گے۔

نئے مجوزہ نظام کی حمایت کرنے والوں کی تعداد کم ہے لیکن پاکستان کے اکثر بڑے کھلاڑی جن میں موجودہ کپتان سرفراز احمد بھی شامل ہیں اس نئے ماڈل کے حق میں نہیں ہیں۔ مشہور مبصر اور سابق کپتان رمیز راجا اس نظام کے سب سے بڑے حامی ہیں۔

سابق کپتان اور موجودہ وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ ملک میں ریجنل کرکٹ کا سسٹم لایا جائے۔عمران خان کی ہی دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا معیار بہتر کرنے کیلئے نہ صرف ٹیموں کی تعداد کم کی جائے بلکہ اسے علاقائی ٹیموں تک محدود کرتے ہوئے ڈپارٹمنٹس کی ٹیموں کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔

عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد اس سوچ میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے کیونکہ وہ اپنے کیریئر کے دنوں سے ہی ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کے خلاف رہے ہیں اور اب چونکہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف بھی ہیں لہٰذا وہ پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کو مکمل طور پر علاقائی سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں پی سی بی گورننگ بورڈ کے رکن اور چیئرمین واپڈا لیفٹنٹ جنرل (ر) مزمل حسین کی سربراہی میں ایک ٹاسک فور س کام کررہی ہے۔ اس نظام کو قانونی بنانے کیلئے پی سی بی آئین میں بھی تبدیلی کی جارہی ہے۔ آئین کو تبدیل کرنے کیلئے وزیراعظم کے نامزد کردہ گورننگ بورڈ کے رکن اسد علی خان کی سربراہی میں ایک اور ٹاسک فورس کام کررہی ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے چند ہفتے قبل ایک پریزنٹیشن تیار کی تھی جس میں علاقائی ٹیموں کے ساتھ ساتھ چند اداروں کی ٹیموں کی موجودگی بھی رکھی گئی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے میں اداروں کی ٹیموں کو موجود نہیں ہونا چاہیے اور انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو ہدایت کی کہ علاقائی سطح پر صرف چھ ٹیموں کو فرسٹ کلاس کرکٹ کا حصہ بنایا جائے۔

اس وقت پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں 8 ادارے اور 8 ریجنز حصہ لیتے ہیں۔ وزیر اعظم نے آسٹریلوی طرز پر چھ صوبائی ٹیموں پر مشتمل پلان بنانے کی ہدایت کی ہے جس پر پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں پلان آخری مرحلے میں ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کی تقرری وزیراعظم عمران خان نے کی ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں۔ اس ماہ پی سی بی کے گورننگ بورڈ کے پانچ ارکان کی جانب سے سامنے لائی گئی قرارداد میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈومیسٹک کرکٹ میں ڈپارٹمنٹس کو ختم کیے جانے کے عمل کو مسترد کردیا گیا تھا اور کہا گیا کہ اس سے کئی کرکٹر بے روزگار ہوجائیں گے۔

قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی جائے جو صورتحال کا جائزہ لے اور اپنی تجاویز بورڈ کے اگلے اجلاس میں پیش کرے۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین میں کوئی بھی ترمیم نئی تجویز شدہ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کی جائے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ ابھی ماڈل تیاری کے مرحلے میں ہے اس لیے اس پر قبل ازوقت رائے نہ دی جائے۔

ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے میں تبدیلی سے متعلق سابق کرکٹرز کی رائے

وسیم اکرم

سابق کپتان وسیم اکرم— فوٹو: فائل

 ماضی کے عظیم فاسٹ بولر اورپی سی بی کرکٹ کمیٹی کے رکن وسیم اکرم کہتے ہیں کہ میں نے ابھی پی سی بی کا نیا ماڈل نہیں دیکھا ہے۔ میڈیا ہی میں سن رہے ہیں کہ چھ ٹیموں کا ٹورنامنٹ کرانے کی تجویز ہے۔ میں کرکٹ کمیٹی کا رکن ہوں، کئی ہفتوں سے کرکٹ کمیٹی کی میٹنگ ہی نہیں ہوئی ہے لیکن وہی فیصلہ ہونا چاہیے جو کھیل کے مفاد میں ہو۔

ظہیر عباس

ایشین بریڈ مین ظہیر عباس — فوٹو: فائل

آئی سی سی کے سابق صدر اور سابق کپتان ظہیر عباس کہتے ہیں کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کا نظام عبدالحفیظ کاردار لائے تھے۔ اس نظام سے پاکستان کرکٹ کو بڑے کھلاڑی ملے اور بہت فائدہ ہوا ہے اس لیے سوچ وبچار کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کی ضرورت ہے۔

راشد لطیف

سابق کپتان و وکٹ کیپر راشد لطیف — فوٹو: فائل

سابق کپتان راشد لطیف خود پورٹ قاسم میں اسپورٹس کے سربراہ رہ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹ کی کرکٹ ضرور ہونی چاہیے لیکن اس وقت جس انداز میں یہ کرکٹ ہورہی ہے اس سے مجھے سخت اختلاف ہے۔ اس وقت کوئی بھی ڈپارٹمنٹ کھلاڑیوں کو مستقل ملازمت نہیں دیتا جس کی وجہ سے کسی بھی وقت کھلاڑی کو ملازمت سے فارغ کردیا جاتا ہے۔

راشد لطیف نے کہا کہ میں الائیڈ بینک میں تھا اس نے اچانک ٹیم بند کردی۔ حال ہی میں یوبی ایل اور حبیب بینک جیسے اداروں نے بھی اپنی ٹیمیں ختم کردیں۔

راشد لطیف نے کہا کہ14-2013 میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر نرگس سیٹھی کے دستخط سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا کہ کھلاڑیوں کو افسر گریڈ میں مستقل ملازمت دی جائے لیکن کسی بھی ڈپارٹمنٹ نے اس پر عمل نہیں کیا۔ کنٹریکٹ ملازمت کا نقصان یہ ہے کہ ڈپارٹمنٹس جب چاہتے ہیں کھلاڑیوں کو نوکریوں سے نکال دیتے ہیں۔

معین خان

سابق کپتان و وکٹ کیپر معین خان — فوٹو: فائل

سابق کپتان، کوچ اور وکٹ کیپر معین خان کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹس کی کرکٹ سے پاکستان کرکٹ کو فروغ مل رہا ہے اس لیے اس نظام کو بند کرنا دانشمندی نہیں، میں نے وزیراعظم عمران خان کو ان کے سامنے بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ نہ کریں، اس نظام میں خامیوں کو دور کیا جائے نظام کو ختم کردینا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کے فوائد بہت ہیں اور اس سے کھلاڑیوں کو ملازمت کے علاوہ اچھے ماحول میں مقابلے والی کرکٹ ملتی ہے۔

سلمان بٹ

سلمان بٹ — فوٹو: فائل

ایک اور سابق کپتان سلمان بٹ کا کہنا ہے کہ اگر ریجن بڑی تعداد میں کھلاڑیوں کو اچھی تنخواہیں دے سکتے ہیں اور اس نئے سسٹم سے کھیل کو فائدہ ہوتا ہے تو اس پر ضرور عمل کیا جائے۔ ہم آسٹریلیا کا نظام لانے کیلئے چھ ٹیمیں بنارہے ہیں آسٹریلیا کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے لیکن پاکستان 23 کروڑ آبادی والا ملک ہے۔ آسٹریلیا ایک ویلفیئر اسٹیٹ ہے جہاں بے روزگاروں کو حکومت سپورٹ کرتی ہے پاکستان میں بے روزگاروں کی مدد کون کرے گا۔

سلمان بٹ نے کہا کہ ریجنل کرکٹ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہاں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے جبکہ ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں میرٹ پر بنتی ہیں۔ آئی سی سی کے ایجنڈے کے مطابق کرکٹ کے فروغ کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے، پہلے بھی پینٹاگولر کے نام سے چھ ٹیموں کا ایک ٹورنامنٹ ہوتا تھا، تجرباتی طور پر پی سی بی نئے نظام کو متعارف کرائے اس کے ثمرات دیکھ کر مستقبل کی پلاننگ کی جائے۔

اعجاز فاروقی

اعجاز فاروقی — فوٹو :فائل

پی سی بی گورننگ بورڈ کے سابق رکن اور ملک کے سب سے بڑے ریجن کراچی کے سابق صدر پروفیسر اعجاز فاروقی کا کہنا ہے کہ ڈپارٹمنٹس کو ختم کرنے اور فرسٹ کلاس ٹیمیں 8 کے بجائے 6 کرنے جیسے فیصلوں کیلئے وقت دینا ہوگا، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کا کرکٹ میں بے پناہ تجربہ ہے، وہ ملک کے وزیر اعظم اور ہمارے ہیرو بھی ہیں لیکن اس طرح کے فیصلے نہیں ہونے چاہئیں کہ آگے چل کر مسائل پیدا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ڈپارٹمنٹس اور ریجنز کو الگ رکھا جا سکتا ہے، پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے، عمران خان اور ورلڈکپ جیتنے والے کئی کرکٹرز اسی دور کی پیداوار ہیں، ڈپارٹمنٹس کے پاس بھی کھلاڑی آتے تو ریجنز سے ہی ہیں لیکن وہاں انھیں مالی آسودگی حاصل ہوتی اور کھیل نکھارنے کا موقع ملتا ہے۔

خیال رہے کہ 70 کے عشرے میں جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے سربراہ اور پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان عبدالحفیظ کاردار نے پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں اداروں کی ٹیموں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو حبیب بینک اولین اداروں میں سے ایک تھا جس نے اپنی کرکٹ ٹیم بنائی۔ دو ہفتے پہلے حبیب نے اپنی کرکٹ ٹیم بند کردی۔ حبیب بینک کی ٹیم کو ہر دور میں بہترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل رہی ہیں۔ ان کرکٹرز میں جاوید میانداد، محسن خان، عبدالقادر، سلطان رانا لیاقت علی، عبدالرقیب، سلیم ملک، اعجاز احمد، شاہد آفریدی اور عمرگل نمایاں ہیں۔

حبیب بینک کی کرکٹ ٹیم ختم کیے جانے کے ساتھ ہی ادارے کا اسپورٹس ڈویژن بھی عملاً ختم ہوگیا ہے کیونکہ بینک نے فٹبال، ٹیبل ٹینس، والی بال، ہاکی اور دیگر کھیلوں کی ٹیمیں پہلے ہی ختم کردی تھیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ حبیب بینک کی کرکٹ ٹیم اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی اور ون ڈے ٹورنامنٹ کی فاتح تھی۔

مزید خبریں :