12 مئی ، 2019
کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ نے دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ 3 ماہ میں سانحہ 12 مئی کے کافی ملزمان کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔
کراچی پولیس چیف کا کہنا ہے کہ سانحہ 12 مئی 2007 کے سلسلے میں پورے کراچی میں 65 مقدمات درج ہوئے تھے اور اب تک 36 مقدمات کا چالان عدالتوں میں جمع کرایا جاچکا ہے۔
ڈاکٹر امیر شیخ کا کہنا تھا کہ حالیہ 3 ماہ میں سانحہ 12 مئی کے کافی ملزمان کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سانحے سے متعلق ڈیجیٹل لائبریری سے استفادہ کیا جا رہا ہے اور ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کے بیانات لیے جارہے ہیں جب کہ مختلف ٹی وی چینلز سے آن اور آف ایئر فوٹیج لے رہے ہیں۔
ڈاکٹر امیر شیخ کا کہنا تھا کہ 12 مئی 2007 سے متعلق بیان کے لیے جے آئی ٹی سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
سانحہ 12 مئی کا پس منظر
12 مئی 2007 کو وکلاء تحریک اپنے عروج پر تھی، اُس وقت کے غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر کراچی آرہے تھے کہ اس موقع پر شہر کو خون سے نہلا دیا گیا۔
معزول چیف جسٹس کی کراچی آمد پر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان استقبال کے لیے نکلے اور کئی مقامات پر اُس وقت کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں میں مسلح تصادم شروع ہوگیا تھا۔
شہر کی شاہراہوں پر اسلحے کا آزادانہ استعمال دیکھنے میں آیا اور خون ریزی میں وکلاء سمیت 48 افراد شہر کی سڑکوں پر دن دہاڑے قتل کردیئے گئے تھے۔
ان واقعات میں 130 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ درجنوں گاڑیاں اور املاک بھی نذر آتش کردی گئیں۔
جس کے بعد شہر کے مختلف تھانوں میں ان افراد کے قتل کے 7 مقدمات درج ہوئے۔
تقریباً 20 ماہ قبل پولیس نے ساتوں مقدمات کے چالان انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جمع کرایا، جس میں اُس وقت کے مشیر داخلہ اور موجودہ میئر کراچی وسیم اختر اور رکن سندھ اسممبلی کامران فاروق سمیت 55 سے زائد ملزمان نامزد ہیں۔
یہ تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہیں اور مقدمات میں 20 ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ملزمان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی۔
صدر کراچی بار ایسوسی ایشن حیدر امام رضوی کہتے ہیں کہ سانحہ 12 مئی ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، جسے وکلاء 'بلیک ڈے' کے طور پر مانتے ہیں.
وکلاء رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سانحہ 12 مئی کی ذمہ دار حکومت سندھ اور وہ تمام ادارے ہیں جن کا کام شہر میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا ہے۔