عثمان بزدار بولتے کیوں نہیں؟

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار / فائل فوٹو

کسی بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ دراصل اپنے صوبے کے تمام امور کا ذمہ دار ہوا کرتا ہے دوسرے الفاظ میں وہ اپنے صوبے کا چیف ایگزیکٹو کہلاتا ہے۔ مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب عثمان بزدار اپنی خاموشی اور کم گوئی کے باعث صوبے کے چیف ایگزیکٹو دکھائی نہیں دیتے جس کی چند وجوہ ہیں۔ 

دراصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ انہیں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ وہ جس مسند پر فائز کیے گئے ہیں وہ اس کے اہل نہیں تھے بلکہ کچھ لوگوں کی نوازشات کے نتیجے میں انہیں یہ مقام و مرتبہ حاصل ہوا۔ کیا یہی وجہ ہے کہ وہ بولتے نہیں ہیں یا انہیں بولنے نہیں دیا جارہا؟

بے شک وہ ایک پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور صوبے کے بعض معاملات پر ان کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے مثلا ً پنجاب کی بیورکریسی کی لگام چار مختلف سٹیک ہولڈرز کے ہاتھ میں ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب اس معاملے پر قابو پانے میں قدرے ناکام دکھائی دیتے ہیں۔حتیٰ کہ پنجاب میں بنائی گئی وزیروں اور مشیروں کی ٹیم،جو انہیں فراہم کی گئی،وہ بھی مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کسی صوبے کے وہ واحد ایڈمنسٹریٹر ہوں گے جو کسی وزیر یا مشیر کا انتخاب کر سکتے ہیں نہ ہی وہ کسی کی بری کارکردگی پر سرزنش کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ 

ان تمام تر معاملات کے باوجود انہوں نے بحیثیت وزیر اعلیٰ متعدد ایسے اقدام اٹھائے ہیں جن پر ان کے کسی پیش رو نے کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ مگر ان کو متذکرہ بالامسائل کی وجہ سے نمایاں نہیں کیا جارہا اور صورتحال یہاں تک ہے کہ وہ کوئی بھی ا قدم اٹھاتے ہیں تو پی ٹی آئی کی دیگر قیادت ان کے ہر کام میں ”وزیر اعظم کی ہدایت پر “شامل کر لیتی ہے۔

اب تک انہوں نے جتنے بھی کام سر انجام دیئے ہیں ہر کام میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

گزشتہ ادوار میں پنجاب بھرکے کسی بھی محکمے میں کوئی کار ہائے نمایاں سر انجام دیا گیا تو یہ ظاہر کیا گیا یہ کام وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان سے پہلے وزیر اعلیٰ پر ویز الٰہی کی ہدایت پر کیے گئے۔ وزیر اعلیٰ چونکہ صوبے کے تمام اداروں اور شعبوں کی کارکردگی کا ذمہ دار اور جوابدہ ہوتا ہے اس لیے ”وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر“ کی منطق سمجھ آتی ہے۔

مگر میرے لیے یہ بات سو ہانِ روح ہے کہ ایک صوبے کے تمام کاموں کا کریڈٹ وزیر اعظم کو زبردستی دیا جائے جس کے نتیجے میں متعلقہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت علامتی سی ظاہر ہوجب کہ یہ تمام پراجیکٹ وفاقی یا دیگر صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں ہر گز شامل نہیں۔

توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تمام کارنامے وزیراعظم کی ہدایت اور ان کے کریڈٹ پر کیے گئے ہیں تو وفاق اور دیگر صوبوں میں ان کی باز گشت کیوں سنائی نہیں دی جاتی حالانکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بعض کارنامے بلا شبہ ایسے ہیں جو قابل تحسین اور منفردہیں اور اگر کسی منصوبے میں، فرض کریں، جناب وزیراعظم کی ہدایت شامل بھی تھی تو اس پر من و عن عمل بھی صرف پنجاب میں ہی کیا گیا مثلاً اسپتال،ریلوے سٹیشن اور مزارات کے قریب پناہ گاہوں کا قیام بلاشبہ ایک منفرد منصوبہ ہے جسے جناب عثمان بزدار نے راتوں رات ہنگامی بنیادوں پر چند دنوں میں مکمل کر کے عوامی سہولت کے لیے کھول دیا اوربعدازاں ان پناہ گاہوں کے تحت غریب عوام کوتحفظ،خوراک اور کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں علاج معالجہ کی سہولت بھی دے دی گئی۔

اسی طرح پنجاب میں مختلف محکموں کے177 ریسٹ ہاؤسز کو عام عوام کے استعمال کے لیےکھولنا بھی ایک مستحسن قدم ہے جس سے نا صرف بیو رو کریسی کی عیاشیوں کو لگام دی گئی بلکہ عوامی سہولت کے ساتھ ساتھ صوبائی آمدنی میں بھی اضافہ کیا گیا۔

عید سے پہلے قلیل مدت میں گندم کی ریکارڈ خریداری بھی ان کی نمایاں کارکردگی ہے اسی طرح پنجاب کے اہم شہر فیصل آبادکو کوڑا کرکٹ سے صاف رکھنے اور ماڈل سٹی بنانے کے لیے ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو جدید مشینری خریدنے کے لیے 52 کروڑ کے فنڈز کا اجراء بھی احسن اقدام ہے۔

مگر ان کاموں کو سر انجام دینے کے با وجودجناب عثمان بزدار اپنی زبان سے اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ شاید اس لیے محسوس کرتے ہیں کہ اس مسند کے لیے جن کے وہ احسان مند ہیں ان کے نزدیک یہ گستاخی متصور ہو گی۔ جب ہر ہفتے بعد وزیراعظم،پنجاب کا بینہ کے اجلاس کی صدارت خود کریں گے تو جناب عثمان بزدار نے جو اعتماد حاصل کرنا بھی ہے، وہ بھی نہیں کر پا رہے بلکہ پہلا اعتماد بھی یقیناًکھوجاتے ہوں گے۔

گزشتہ دنوں نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت پنجاب میں بننے والے پہلے منصوبے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر اوکاڑہ (رینالہ خورد) جانے کا اتفاق ہوا جہاں وزیر اعظم عمران خان، صوبائی وزیر ہاؤسنگ میاں محمود الرشید کے علاوہ ایک علاقائی ایم این اے نے بھی خطاب کیا مگر وزیر اعلیٰ پنجاب کی موجودگی کے باوجود انہیں عوام سے کسی قسم کے خطاب کے لیے دعوت نہیں دی گئی اور وہ سٹیج پر خاموش تماشائی کے طور پر براجمان رہے۔

بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب میں اس صوبے کے وزیر اعلیٰ کچھ بولنا نہ چاہتے ہوں یا بولنا نہ جانتے ہوں اور ان کی موجودگی میں ان کی کابینہ کے رکن اور مقامی ایم این اے خطاب کریں اور انہیں اہمیت نہ دی جائے۔ چہ معنی دارد؟

درحقیقت عثمان بزدار کو بولنے نہیں دیا جارہا، ایسا ہرگز نہیں کہ ایک روایتی خاندانی سیاست دان بات کرنے کے فن سے نا بلد ہو۔ اگر عثمان بزدار بحیثیت وزیر اعلیٰ اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو پنجاب میں پارٹی کے دیگر مختلف طاقت کے علمبردار وں کے لیے ناخوش گوار ثابت ہوں گے، اگر ان تمام کاموں کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ کو دیا جائے تو نا صرف وہ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ صوبے میں پارٹی کی نیک نامی میں اضافے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

مگر یہ بات پنجاب میں موجود وفاق کے نمائندے سے لے کر صوبائی قانون سازی ہاؤس کے کسٹوڈین سمیت دیگر طاقتور ایم پی ایز کے لیے انتہائی ناگوار ہے اور یہ تمام طاقت کے علمبردار پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں نا صرف شامل رہے ہیں بلکہ مسلسل اپنے لیے ماحول کو سازگاربنانے میں تا دم تحریر کوشاں ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔