اثاثے ظاہرکرنے کی اسکیم پر خصوصی ٹرانسمیشن، وزیراعظم اور معاشی ٹیم نے سوالوں کے جواب دیے



اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم پر جیو نیوز کی تاریخی خصوصی ٹرانسمیشن میں وزیراعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم نے دو گھنٹے تک عوام اور تاجروں کے سوالات کے جواب دیے۔ وزیراعظم نے پہلی بار براہِ راست سوالات کے جوابات دے کر نئی تاریخ بھی رقم کی ۔

ذیل میں اس پروگرام میں ہونے والے سوال اور ان کے جوابات کی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔

سوال حامد میر: اسکیم کے حوالے سے بنیادی مسئلہ اعتماد کی کمی کا ہے لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ فرض کریں اگر اعتماد کر کے اثاثہ ظاہر کر دیتے ہیں تو کیا آپ ہمیں یہ ضمانت دیتے ہیں کہ پھر ہمارے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی؟

جواب عمران خان: میں سب سے پہلے ایک بات کرنا چاہتا ہوں ،ہر ملک کا ایک وقت آجاتا ہے جو انگریزی کا لفظ ہے 'کراس روڈ ز' یعنی آپ جس راستے پر لگے ہوئے ہیں اس پر اب جا نہیں سکتے یا آپ ایک تباہی کے راستے پر جائیں گے یا اپنے آپ کو تبدیل کر کے اپنے آپ کو کھڑا کرسکتے ہیں ، قوموں کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پہلے ہم دنیا میں سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں ، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جتنے دس سالوں میں قرضے لیے ہیں ہمارا آدھا ٹیکس جو اکٹھا کرتے ہیں وہ قرضوں کے سود ادا کرنے پر چلا جاتا ہے ، باقی جو بچتا ہے اس میں تو ملک نہیں چل سکتا ۔

ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں ایک یہ کہ ہم اپنا ذہن تبدیل کریں گے ، ایک مہذب معاشرے کیلئے سارے حصہ ڈالیں گے یعنی ٹیکس دیں گے یا پھر ہم مزید قرضوں کی دلدل میں پھنستے جائیں گے ۔ بڑی قو میں اس طرح تباہی کی طرف گئی ہیں ۔ جہاں آج ہم کھڑے ہیں ہمیں اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا ،پاکستان کو وہ ملک بنانے کے لئے جو وہ بن سکتا ہے جو بن رہا تھا 60 کی دہائی میں جب میں بڑا ہو رہا تھا تو یہ سب سے تیزی سے اوپر جارہا تھا ۔

دوسری چیز یہ کہ ہم یہاں پہنچے کیوں ہیں ؟ ہم یہاں کرپشن کی وجہ سے پہنچے ہیں ، دوسرا ہم ٹیکس نہیں دیتے ۔ کیوں کہ کرپشن زیادہ ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ میں حکومت کو ٹیکس کیوں دوں میرا پیسہ تو مجھ پر لگے گا ہی نہیں ۔ لوگ پہلے تو وہ کہتے ہیں کہ ٹیکس ہمارا چوری ہوجائے گا پھر اگر ٹیکس چوری نہ بھی ہو تو ہم پر نہیں خرچ ہوگا ۔ میں آج اپنی قوم کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انشا اللہ ہم آپ کا ٹیکس آپ پر خرچ کریں گے ،ہم اپنے خرچے کم کر رہے ہیں کبھی حکومت نے اتنے خرچے کم نہیں کیے جو ہم کر رہے ہیں ، وزیراعظم ہاؤس کا ہم نے 30 سے 35 فیصد خرچہ کم کر دیا ہے ، ہم سارے وزیروں نے 10 فیصد تنخواہوں پر کم کیا ہے، پہلی دفعہ یہ دیکھتے ہوئے پاکستانی فوج نے اپنے خرچے کم کیے ہیں خرچہ کا مطلب جو ان کو مہنگائی کی وجہ سے اضافہ لینا تھا وہ نہیں لیا ۔

میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کا ٹیکس آپ پر لگے گا ۔ دوسرا جو آپ نے اعتماد کی کمی کی بات کی کہ لوگ کہتے ہیں ایک دفعہ ٹیکس نیٹ میں آجائیں تو ہمیں پھر ادارے تنگ کریں گے ، ایف بی آر تنگ کرے گی ۔ دو چیزیں ہیں ایک میں نے اپنی ٹیم کو کہا بھی ہوا ہے کہ ایک اسپیشل ہیلپ لائن دیں کہ کوئی بھی کسی کو تنگ کرے ادھر اس پر کال کریں ۔ دوسرا میرا اپنا جو پورٹل ہے جو ہمارے وزیراعظم ہاؤس میں جس میں کوئی بھی شکایت کرسکتا ہے اس کے اندر بھی اسپیشل سیکشن بنا دیں گے اگر کسی کو کوئی مسئلہ ہو تو مجھے کال کرسکتا ہے ہم انشا اللہ آپ کو کسی ادارے کو تنگ نہیں کرنے دیں گے۔



سوال حامد میر: آپ نے شبر زیدی کو لانے سے پہلے کہا تھا ایف بی آر پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اگر ایف بی آر نے صحیح کام نہ کیا تو ہم نیا ایف بی آر بنائیں گے تو ایف بی آر کے حوالے سے جو ریفارمز ہیں وہ کون سی ہو رہی ہیں اور خاص طور پر آج جو ڈیمانڈ سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ جو ایسٹ ڈکلیئریشن اسکیم ہے اس کو بھی بہت سادہ ہونا چاہیے اور جو ٹیکس ریٹرنز لوگ فائل کرتے ہیں وہ سسٹم بھی بڑا سادہ ہونا چاہیے اس کیلئے آپ نے کیا ہدایات دی ہیں؟

جواب عمران خان: دیکھیں اس کی تفصیلات تو شبر زیدی بتائیں گے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اگر پیسے اکٹھے نہیں کریں گے ، میں پھر سے کہہ رہا ہوں ملک نہیں چل سکتا ، میں اپنی قوم کو کہنا چاہتاہوں کہ ہم ایف بی آر میں ہر قسم کے ریفامز کریں گے اس کا اصل میں طریقہ یہ ہے کہ ہم ٹیکنالوجی لے آئیں گے یعنی جو ٹیکس دینے والا ہے اور اس کے بیچ میں اور گورنمنٹ کے بیچ میں ٹیکنالوجی آجائے گی ۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ میری بات ہوئی ہے شبر زیدی سے ہم کوشش کریں گے کہ ایف بی آر کی پوری طرح ہر سطح پر ریفارم کریں لیکن جہاں ریفارم نہیں ہو گی ہم ہر سطح پر جائیں گے یعنی اگر ہمیں متوازی سسٹم بنانا پڑا ادھر بھی جائیں گے یہ اس لیے ہے کہ ہمارے پاس اب دوسرا راستہ نہیں ہے اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو یہ مزید قرضے بڑھتے جائیں گے۔

سوال حامد میر: ابھی ہمیں پتہ چلا ہے حماد اظہر نے بتایا ہے کہ کوئی ایک لاکھ سے زیادہ جو این ایف فارن بینک اکاؤنٹس کا پتہ چلا ہے جو کہ آف شور اکاؤنٹس ہیں اس قسم کی انفارمیشن آپ کے پاس بہت سے لوگوں کے بارے میں آگئی ہے تو وہ لوگ اگر اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو 30 جون کے بعد پھر کیا حکومت کے پاس ایسے وسائل ہیں کہ پاکستان سے باہر جن لوگوں نے اس طرح سے آف شور اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں آپ کے پاس انفارمیشن ہے تو پھر آپ کیا کریں گے؟

جواب عمران خان: میں اسپیشل اپیل کرنا چاہتا ہوں پاکستانیوں کو جو یہاں بھی ہیں باہر بھی ہیں کہ ملک چلتا ہے جب قوم اور حکومت اکٹھی ہوجاتی ہے ، میں نے جو زلزلہ تھا اس میں اپنی قوم کو دیکھا ہے اور پھر جب سیلاب آیا میں نے دیکھا ہے جس طرح سارے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور پاکستان کے اندر سب نے مل کر پاکستان کو اس مشکل وقت سے نکالا ۔ جہاں آج ہم ہیں قوم اور گورنمنٹ مل کر یہ کرسکتی ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ یہ سارے اس اسکیم سے فائدہ اٹھائیں ۔ مجھے کئی پیغامات آئے کہ ہمارے پاس ٹائم نہیں ہے تاریخ بڑھا دیں اگر آپ کے پاس ٹائم نہیں ہے تو آپ ابھی خود کو رجسٹرڈ کرلیں اور کہیں کہ بعد میں قسطوں میں دے دوں گا ۔ ہم ہر طریقے سے آپ کے لئے آسانی پیدا کریں گے ۔

سوال حامد میر: آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فائنل ہے 30 جون کے بعد اس اسکیم میں کوئی توسیع نہیں ہوگی؟

جواب عمران خان: وہ ہم کر نہیں سکتے 30 جون کے بعد توسیع کی اور پھر اگر یہ بھی لوگوں کو ہوا کہ ایک اور اسکیم مل جائے گی ایک اور اسکیم نہیں ملنے لگی اور آپ نے اس سے پہلے بات کی کہ ہمارے پاس جو انفارمیشن ہے آج جو پاکستان گورنمنٹ کے پاس انفارمیشن ہے وہ کبھی بھی کسی گورنمنٹ کے پاس پہلے نہیں تھی ۔ اس کی وجہ ہے کہ ایک باہر سے انفارمیشن آرہی ہے کیوں کہ ہم نے ایم او یو سائن کیے ہوئے ہیں ملکوں سے جو انفارمیشن دے رہے ہیں۔

منی لانڈرنگ کا مطلب یہ کہ اگر کسی کا پیسہ باہر پڑا ہے اور وہ یہ بتا نہیں سکتا کہ سورس آف انکم کیا ہے ، کیا جائز طریقے سے پیسہ کمایا ہے نہیں تو وہ منی لانڈرنگ کے اندر آجائے گا پھر قوانین ایسے ہیں کہ اب وہ پاکستان کو انفارمیشن دیں گے اور پاکستان پیسہ واپس منگوا سکتا ہے ۔ دوسری چیز بے نامی ،،کبھی پاکستان میں بے نامی قوانین نہیں تھے ، اب بے نامی قانون ہے ، مطلب یہ کہ کسی نے اپنے نوکر کے نام یا کسی کے نام پر جائیداد کروائی ہوئی ہے اور اگر نوکر یہ نہیں بتا سکتا کہ کہاں سے میرے پاس وسائل آئے ہیں اربوں روپے کی جائیداد جس طرح ہمیں پتہ ہے کہ ایک سیاستدان نے پانچ گھر اپنے نوکر کے نام پر لیے ہوئے ہیں دبئی میں اگر یہ نہیں بتا سکتے تو وہ ضبط ہوجائے گی ، سزا بھی ہوگی اور پراپرٹی بھی گورنمنٹ کی ہوجائے گی یہ کبھی پہلے پاکستان کے پاس قوانین نہیں تھے۔

سوال حامد میر: بہت سے لوگ پاکستان سے ٹی ٹی کے ذریعے رقم باہر بھیجتے ہیں اور وہاں پر وہ اثاثے بھی خرید لیتے ہیں تو اب آپ کی اسکیم کو ختم ہونے میں پانچ چھ دن باقی ہیں تو وہ جو ٹی ٹی والے لوگ ہیں جنہوں نے ٹی ٹی سے رقم باہر بھیجی ہوئی ہے تو وہ بھی کیا اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اگر وہ فائدہ اٹھانے کا اعلان کردیں اور اپنا سب کچھ ڈکلیئر کردیں تو نیب تو ان کو تنگ نہیں کرے گا؟

جواب عمران خان: سب کو سمجھ جانا چاہیے کہ منی لانڈرنگ نے کیا کیا ہے پاکستان کے ساتھ ، منی لانڈرنگ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے آپ یہاں سے پیسہ چوری کرتے ہیں اور اس کے بعد پھر آپ ہنڈی اور حوالے سے باہر بھیجوادیتے ہیں ، ایک قانون پاس ہوا تھا 1992 ء میں اکنامک ریفارم ایکٹ ، ادھر سے ترسیلات کے نام پر پیسے پاکستان واپس منگوالیتے ہیں ، اب یہ ایک پیٹرن بنا ہوا ہے اس کے اندر حدیبیہ پیپر مل بھی یہی تھا، ہل میٹل بھی یہی اور جو جعلی اکاؤنٹس کا کیس ہے جو ابھی اومنی گروپ یہ بھی وہی چیز ہے ۔ یہ بنیادی طور پر کرتے کیا ہیں جب پیسہ چوری کرتے ہیں تو اگر پاکستان میں رکھتے ہیں تو لوگوں کو پتہ چل جائے گا لہٰذا اس کو باہر بھجواتے ہیں ، یہ دوگنا نقصان کرتے ہیں ۔ دس ارب ڈالر پاکستان میں سالانہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے جو پیسہ باہر جاتا ہے ملک سے اور چھ ارب کا ہم آئی ایم ایف کا قرضہ لے رہے ہیں تو سوچیں اگر منی لانڈرنگ پر قابو پاجائیں تو آج مسئلہ نہ ہو، جو سیاستدان ہیں اور پبلک آفیس ہولڈر ہیں ان کیلئے یہ اسکیم نہیں ہے۔


سوال خواجہ شہزاد ناصر (لاہور چمبر): میرا سوال وزیراعظم سے یہی ہے کہ ایمنسٹی کے ساتھ کاروباری حالات کو بھی بہتر کیا جائے اس وقت لوگوں کا پیسہ ڈالر کے اوپر جانے سے کم ہوگیا ہے ایسے میں یہ انڈسٹر ی کے لئے بہت مشکل ہوگیا ہے کاروبار چلانا ، بینک کی جو شرح سود ہے اس کو کم کیا جائے ، سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے اور کمرشل بینک بھی اس کو کم سے کم کرے تاکہ وہ بینکوں سے قرضہ لے کر اپنا کاروبار چلائیں اور اس ملک کی ترقی میں ساتھ دیں۔

حامد میر: وزیراعظم صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ کاروباری حالات سخت ہیں ڈالر کا ریٹ اوپر جانے سے ان کا پیسہ کم ہوگیا ہے شرح سود کو کم کیا جائے۔

جواب عمران خان: یہ بات ٹھیک بھی کہتے ہیں کہ جو چھوٹی اور درمیانی انڈسٹری ہے جو ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے ملک کے لئے اس کو کافی نقصان پہنچا ہے ہماری پالیسی سے ماضی میں اب یہ یہاں حفیظ شیخ بیٹھے ہیں ان کو پتہ ہے میری کوشش ہے دو طبقوں کو فائدہ ہو ایک غریب طبقہ اس کے لئے ہم نے پورا یہ جو احساس پروگرام ہے ان حالات میں مشکل حالات میں 90 ارب روپے مزید بڑھایا ہے ۔ دوسرا طبقہ ہے ہماری بزنس انڈسٹری اس کے لئے ہم نے جو مشکل حالات میں کوشش کی ہے حفیظ شیخ آپ کو ایگزیکٹ تفصیل دے دیں گے کہ کس طرح اپنی انڈسٹری کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے کیوں کہ ملک میں اگر ہم نے یہ قرضہ واپس کرنا ہے تو پہلے تو ہم ویلتھ جنریٹ کریں گے مثلاً ملک کو انڈسٹرلائز کریں گے تاکہ پیسہ بنے لوگوں کو نوکریاں ملیں گروتھ ریٹ بڑھے اور پھر اس پیسے سے ہم یہ قرضے واپس کریں اور لوگوں کو غربت سے نکالیں ۔ دو طبقوں کو ہم نے پورا فائدہ دینے کی کوشش کی ہے اب جو خواجہ صاحب نے بات کی میں صرف ایک چیز کہنا چاہتا ہوں کہ جب ایک ملک ، ایک گھر مقروض ہوجاتا ہے تو اس سے نکلنے کے لئے تھوڑا مشکل وقت آپ کو برداشت کرنا پڑتا ہے ، یہ دنیا میں نہیں ہوا کہ ایک ملک مقروض ہوجائے یا آج ہم قرضے لے رہے ہیں قرضوں کی قسطیں ادا کرنے پر اس کو 'ڈیٹ ٹریپ' کہتے ہیں اب اس سے نکلنے کے لئے اگر یہ سمجھیں گے کہ سارا ملک تکلیف کے بغیر نکل جائے گا یہ ناممکن ہے ۔ ترکی نے ایک مشکل سال گزارا اس کے بعد ترکی اوپر جاتا رہا کیوں کہ انہوں نے اسٹریکچرل ایڈجسٹمنٹ کی۔ جب آپ اصلاحات کر رہے ہیں بجٹ بیلنس کر رہے ہیں آمدنی بڑھا رہے ہیں خرچے کم کر رہے ہیں تھوڑی دیر مشکل وقت آئے گا لیکن اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ یہ ملک میں جو اللہ نے نعمتیں بخشی ہیں یہ ملک بڑی تیزی سے اوپر جائے گا۔


سوال ہارون فاروق ، کراچی چمبر: بدقسمتی سے یہ جو اس وقت ہمارا فنانس بل آیا ہے اس میں کچھ چند ایسی چیزیں کی گئی ہیں جو کہ اوور نائٹ سمجھا جارہا ہے کہ شاید ایک دن میں پورے کا پورا ماحول 180 ڈگری میں چینج ہوجائے گا ۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ سب رجسٹرڈ ہوں سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں لیکن ہم اَن رجسٹرڈ کو اوور نائٹ پکڑنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہے چاہے وہ ایف بی آر کی کتنی بھی صلاحیت بڑھا لیں یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ کام سارے کا سارا کام انفوسمنٹ ونگ نے کرنا ہے ایف بی آر کی بلڈنگ میں یہ کام نہیں ہوگا۔ اس کو انفورس کرنے کے لئے ہمارا جو مائنڈ سیٹ ہے enforcement لیول پر اس کو چینج کرنے کی ضرورت ہے وہ بھی اوور نائٹ چینج نہیں ہوسکتا ۔ میری صرف یہ درخواست ہے کہ ہمیں جتنی بھی کریکشن کرنی ہے یہ ہمیں بتدریج کرنی پڑیں گی آپ نے اگر سیف لینڈنگ کرنی ہے smooth لینڈنگ کرنی ہے تو وہ descending order میں ہی کریں گے۔

سوال حامد میر: وزیراعظم صاحب ہارون فاروق کہہ رہے ہیں فنانس بل میں ایسی چیزیں ہیں جس سے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ اوور نائٹ کچھ کرنا چاہ رہے ہیں تو اس میں میرا خیال ہے چھاپے مارنے کے اختیارات بھی دیئے جارہے ہیں ایف بی آر والوں کو اس کی وجہ سے وضاحت کر دی تھی حفیظ شیخ نے لیکن کچھ آپ بھی تسلی دے دیں۔

جواب عمران خان: کئی چیزیں اس میں پہلی دفعہ کوشش کی گئی ہے جو پہلے نہیں ہوا ۔ شبر زیدی آپ کے سامنے بیٹھے ہیں ان سے بات کرسکتے ہیں ، یعنی کوشش یہ ہے کہ ہم بزنس اور ہم مل کر یہ کریں ہم نے اتنی بزنس سے consultation کی ہیں ان کو بتایا ہے کہ اس حالات میں پھنسے ہوئے ہیں یہ مجبوریاں ہیں آپ بتائیں کہ آپ کی کیسے مدد کرسکتے ہیں اور آپ ملک کی کیسے مدد کرسکتے ہیں اس کے اندر compromise ہے کئی جگہ ہم نے give in کیا ہے کئی جگہ انہوں نے بتایا ہے مثلاً رئیل اسٹیٹ میں ایشوز آئے کہ اگر آپ فکس ٹیکس کر دیں کئی علاقوں میں تو زیادہ اچھی کلیکشن ہوگی اس میں کرپشن کم ہوگی اس طرح کی چیزیں تو یہ give and take ہو رہا ہے اس میں ہم نے پوری طرح مشاورت کی ہے جو تفصیلات ہیں شبر زیدی ، حفیظ شیخ بتا سکتے ہیں ۔ میں آپ کو ایک چیز کہتا ہوں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں، نہ عمران خان کی کوئی بزنس ہے نا اس کی فیکٹری ہیں ، کوئی میرا اس وقت ذاتی مفاد نہیں ہے ، مسئلہ کیا ہوتا ہے ہمارے ملک میں جو 30 سال میں لیڈر شپ آئی تھی وہ خود بزنس میں تھی ان کے خود مفادات تھے ، ان کی اپنی فیکٹریاں تھیں یعنی ان کو فائدہ ہوتا تھا قانون چینج کرنے سے وہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتے تھے میری تو کوئی لابی نہیں ہے نا میرا کوئی رشتہ دار ہے نہ مجھے کسی دوست کی پروا ہے میں صرف اس وقت اپنے ملک کا سوچ رہا ہوں ، اپنے ملک کے لئے جو آپ مجھے کنوینس کریں گے یہ ملک کی بہتری ہے میں آپ کے ساتھ چلوں گا ، میں کوشش کروں آپ کو کنوینس کرنے کے لئے کیوں کہ آج جہاں پاکستان کھڑا ہے ۔ جو بیرون ملک پاکستانی ہیں کبھی ان سے پوچھیں اُن کو کتنی قدر ہے اپنے ملک کی جو ملک سے باہر جاتا ہے اس کو سمجھ آتا ہے کہ اللہ نے کتنا بڑا تحفہ دیا ہے اس ملک میں جو وسائل دیئے ہیں جو معدنیات ، کوئلہ ، تانبا ہمیں اندر آکر پتہ چلا ہے کہ اللہ نے اس ملک کو کیا کیا چیزیں دیں ہیں ۔ اگر تھوڑا سا بھی اپنی پیداواریت بڑھائیں یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا یہ جو مشکل وقت ہے اس سے ہم نے نکلنا ہے اس میں صرف آپ کی ایڈوائز چاہوں گا ابھی بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایڈوائز دے سکتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ ہم بہتر کرسکتے ہیں ان حالات میں میری ٹیم بیٹھی ہوئی ہے سننے کے لئے تیار ہیں۔

[embed_video6 url=http://stream.jeem.tv/vod/78ce6fa1cc86a1cc61284cacd0a5b48c.mp4/playlist.m3u8?wmsAuthSign=c2VydmVyX3RpbWU9Ni8yNC8yMDE5IDc6MTc6NDAgUE0maGFzaF92YWx1ZT03b1hXQlJWVkxMajNsQy95VXJKUlpRPT0mdmFsaWRtaW51dGVzPTYwJmlkPTE= style=center]


سوال حاجی افضل (پشاورسرحد چمبر): عمران خان کی موجودگی کا فائدہ لیتے ہوئے دو معصومانہ سوال ہیں ایک تو یہ ہے کہ آپ کے جو ایم این ایز ہیں جو وزراء ہیں بجائے دس فیصد کے وہ اس قوم کے لئے قربانی دیں اپنی 100 فیصد تنخواہ اگر سرینڈر کردیں ایک سال کے لئے تو بجٹ پر اچھا اثر پڑے گا اور دوسرا جو میرے چھوٹے تاجر ہیں ان کی نمائندگی کرتے ہوئے کہ ہمارے اسٹاکس اس وقت یا انٹریڈ ہیں یا مارکیٹ میں ہمارے پیسے لوگوں کے پاس ہیں اب ہم ان کو جولائی اگست ستمبر میں شاید جو قرضہ ہے مارکیٹ میں ملے یا اسٹاک میرا بعد میں سیل ہو اس کو ہم کیسے ڈکلیئر کریں تاکہ ہم آپ کی اسکیم کو کس طرح کامیاب کریں اس کا مجھے معصومانہ جواب چاہیے۔

جواب عمران خان: یہ اتنے معصومانہ نہیں پر سوال اچھے ہیں ،، پہلی چیز کہ آپ کے پاس اگر آپ کہتے ہیں پیسہ قسطوں میں آئے گا بعد میں آئے گا تو یہ آپ کو وضاحت دیں گے شبر زیدی بھی اور ڈاکٹر حفیظ شیخ ۔۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری اس وقت یہ پوزیشن ہے ستمبر اکتوبر تک بتادیں ان کو کہ exactly آپ کے پاس پیسہ کب آئے گا تو وہ اس کی پرویژن کر دیں گے لیکن جو نہیں ہوگا جو پہلی ایمنسٹی اسکیم میں کیا گیا کہ پہلے کیش ڈکلیئر کردیا میرے پاس اتنا پیسہ ہے آگے بھی پیسہ دو نمبری سے کمانا تھا اس کو پہلے ڈکلیئر کر دیا آپ کو بتانا پڑے گا کہ اس تاریخ تک بینک میں پیسہ رکھنا پڑے گا ۔

جہاں تک آپ نے ایم این اے اور ایم پی کی بات کی ہے میں صرف یہ کہوں گا کہ جو ایم این اے اور ایم پی ایز ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ صحیح طرح سے اپنا کام کریں تو ان کوجو ابھی تنخواہ مل رہی ہے مشکل سے گزارا ہوتا ہے ان میں جو منسٹرز ہیں انہوں نے 10 فےصد اپنی ہم سب نے تنخواہیں کم کی ہیں۔

سوال حامد میر: اب اس میں میرا آخری سوال یہ ہے وزیراعظم صاحب ابھی جو ہم نے ڈسکشن کی ہے پچھلے تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے میں اس میں بہت سے لوگ جو ہیں وہ یہ یقین دہانی حاصل کی انہوں نے حفیظ شیخ صاحب سے اور حماد اظہر صاحب سے کہ وہ اگر اپنے ایسٹ ڈکلیئر کردیں گے اس اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اس میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پا س ایک صرافہ مارکیٹ ہے اس کے پاس تین ٹن سونا ہے ایک صاحب جو ہیں ان کے نام پر 400 گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں لیکن ان کو یقین دہانی کروادی گئی ہے کہ آپ ڈکلیئر کردیں تو آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اب اس میں جو جنرل پبلک ہے وہ آپ سے یہ سننا چاہ رہی ہے جس کا کہ آپ نے تھوڑا سا ذکر بھی کردیا کہ ہم اپنا سب کچھ ڈکلیئر کردیتے ہیں ٹیکس سسٹم میں آجاتے ہیں اور ٹیکس دیناشروع کردیتے ہیں لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پھر کوئی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے جو ان کے پیسے ہیں وہ ایم این اے ایم پی ایزکے ڈیولپمنٹ فنڈ ز کی طرف نہیں چلے جائیں گے ایسے کاموں میں نہیں چلے جائیں گے جو کہ ماضی کی سیاسی حکومتیں کرتی رہی ہیں؟

جواب عمران خان: حامد دیکھیں میں یہ جو آپ نے آخری سوال پوچھا اس کا میں جواب اس طرح دیتا ہوں دیکھیں میں یہ ایک چیز دہراتا ہوں کہ پاکستان جدھر آج پہنچ گیا ہے اس کے اندر ہمیں عوام کو بھی اپنے آپ کوتبدیل کرنا ہے ہمیں جو گورنمنٹ ہے اور گورنمنٹ کے ادارے ہیں ہمیں بھی تبدیل کرنا ہے ۔ قرآن میں اللہ کہتا ہے کہ میں کبھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کرے اس کا مطلب ہم سب کوبدلنا ہے جیسے ہم گورنمنٹ چلاتے آئے ہیں اب تک ہمیں بدلنا ہے میں نے پہلے دن سے کیا کوشش کی ہے ، خود سے شروع کیا ہے ، جو پرائم منسٹر ہاؤس ہے ، جو اتنی بڑی زمین ہے وہاں ایک زبردست اسٹیٹ آف دی آرٹ یونیورسٹی بنارہے ہیں جو کہ ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے آرٹیفیشل انٹیلی جنس وغیرہ چین کے ساتھ مل کر، میں اپنے گھر میں رہتا ہوں ، اپنا گھر کا سارا خرچہ خود دیتا ہوں کوئی کیمپ آفس نہیں ہے ، بجلی بل وغیرہ سارے بل میں خود دیتا ہوں اور میری جوتنخواہ ملتی ہے اس میں میرا گھر کا خرچ پورا نہیں ہوتالیکن میں نے خود سے قربانی شروع کی ہے ہم اپنے سے قربانی اپنے وزیروں سے اپنے رہن سہن سے کوئی میں نے دورہ نہیں کیا جس دورے سے میری قوم کوفائدہ نہیں ہے حالانکہ مجھے اور بھی دوروں پر مدعو کیا گیا تھا ، مجھے انگلینڈ میں بھی مدعو کیا ہوا تھا کہ ورلڈکپ بھی دیکھ لیں گے میں نے یہ سوچا کہ میں کوئی یہ پاکستان کا پیسہ خرچ نہیں کروں گا جب تک میری قوم کو فائدہ نہیں ، یہ سوچ میں انشاء اللہ ساری گورنمنٹ میں آہستہ آہستہ نیچے تک لے آؤں گا ۔

دوسری چیز جو ہماری ایف بی آر ہے اس کو بالکل ہم نے بدلنا ہے اس کے اندر ریفارمز لے کے آنی ہے شبر زیدی اور میں نے یہ ذمے داری لی ہے کہ میں نے اور شبر زیدی نے اس کو ٹھیک کرنا ہے ہم دونو ں نے لوگوں کو احساس دلوانا ہے کہ آپ جو ٹیکس دیں گے آپ پر خرچ ہوگا اور ایف بی آر کے اندر ہم نے ریفارمز لانی ہیں جو لوگوں کو خوف ہے ایف بی آر سے وہ ہم نے ختم کرنا ہے ساتھ ساتھ ادارے جو ہیں گورنمنٹ کے جو ہمارے لاء انفورسٹمنٹ کے ایف آئی اے ہے پولیس ہے وغیرہ وغیرہ جوان اداروں کو ہم نے لوگوں کو یہ احساس ہو کہ یہ ہمارے دشمن نہیں ہیں ان کو ہم نے ٹھیک کرنا ہے ساتھ ساتھ یہ ریفارمزچلتی جائے گی یہ ریفارمز پراسیس چلتا جائے گا اور انشاء اللہ میں یہ سمجھتاہوں کہ آپ دیکھیں کہ یہ ادارے بھی ٹھیک ہوں گے ہم بھی چینج ہوں گے اور میں یہ امید رکھتاہوں کہ ہم سب سے زیادہ دنیا میں خیرات دینے والے ملکوں میں سے ایک ہیں لیکن ہم سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں ہم ٹیکس کو بھی ایک قومی فریضہ سمجھیں گے ہم یہ سمجھیں گے کہ ملک کو اٹھانے کے لئے ہم ٹیکس دیتے ہیں۔

سوال حامد میر: تو اس کا مطلب ہے آپ کہہ رہے ہیں کہ اچھا وقت آرہا ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے؟

جواب عمران خان: اچھا وقت توحامد میر انشاء اللہ اس ملک میں آنا ہے کیونکہ اس ملک کو اللہ نے خاص یہ واحد ملک تھا جو اسلام کے نام پر بنا تھا اور ہم دور چلے گئے اپنے آئیڈیل سے جو مدینہ کی ریاست کے آئیڈیلزتھے وہ انشاء اللہ واپس لے کے آئیں گے پاکستان کو وہ ملک بنائیں گے کہ جدھر ریاست ذمے داری لے گی اپنے کمزورلوگوں کی ، ایک فلاحی ریاست بنائیں گے صرف ہم نے لوگوں کو Convinceکرنا ہے ۔ بیرون ملک پاکستانی بیٹھے ہیں وہ ہمارے سب سے بڑے سپورٹرز ہیں ان کو احساس ہے کہ یہ کتنا قیمتی ملک ہے ، پاکستانی ہمارے ہیں ان کو ہم نے یہ احساس دلوانا ہے کہ جس طرح اب تک ہم سمجھتے تھے کہ ٹیکس دینے کا مطلب ایسی گورنمنٹ کو ٹیکس دینا ہے جو کہ عیاشیوں میں اڑاتی ہے بڑے بڑے محلوں میں ا ن کو یہ احساس دینا ہے کہ انشاء اللہ ان کا ٹیکس عوام پر خرچ کریں گے۔


سوال صلاح الدین خلجی: عمران خان صاحب چاہ رہے ہیں کہ پورے پاکستان کو ٹیکس نیٹ ورک میں لائیں بدقسمتی سے کوئٹہ بلوچستان کو ایران کے ساتھ ٹریڈ میں مشکلات آرہی ہے کہ ہمارا کوئی بینکنگ سسٹم نہیں ہے ہمیں حوالے اور ہنڈی پر مجبور کیاجارہاہے تو ہم کیا کریں کس طرف جائیں ہماری یہاں سے جو گڈز جاتی ہیں پنجاب میں اس کی ڈاکیومنٹ کو وہ مسترد کردیتے ہیں وہ بلوچستا ن کے کاغذات کو نہیں مانتے وہ کہتے ہیں کہ جی یہ بلوچستان کے ڈاکیومنٹ ہیں مثلاً کہ ایک ویران صوبہ ہے اور اس میں اگر یہ پوزیشن ہے تو کیا کیاجائے ؟

جواب عمران خان: بالکل بات ٹھیک کہہ رہے ہیں دونوں باتیں ٹھیک کی ہیں انہوں نے پہلے تو ادھرآئیں کہ جو لیڈر شپ ہے وہ اپنے سے شروع کرتی ہے اور ہمیں پتا ہے سب انگریزوں میں اور یہ جو مغرب کے اندر تویہ چیزیں بعد میں آئی ہیں لیکن مدینہ کی ریاست میں تو یہ سب سے پہلے آگئی کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کہا کہ میری بیٹی بھی قانون توڑے تو وہ ذمے دار ہوگی یعنی انہوں نے کہا کہ کوئی قانون سے اوپر نہیں اور پھر حضرت عمر کا جو مشہور واقعہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی پوچھتا ہے کہ کہاں سے آپ نے یہ لباس لیاتو ایک لیڈر جواب دہ ہوتا ہے ، تو آپ بالکل بات ٹھیک کہہ رہے ہیں میں نے اپنی پارٹی کے اندر 2012ء سے ساری سینئر لیڈر شپ کو کہا تھا کہ اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں میرے سارے اثاثے ڈکلیئرڈ ہیں ، سارا میرا پیسہ پاکستان میں ہے میں نے 25 سال باہر کمائی کی سارا پیسہ بینکنگ چینل سے پاکستان لے کے آیا ہوں ایک ایک پیسہ میرا پاکستان میں ہے اور میں نے ساری اپنی لیڈر شپ کو کہا ہے کہ اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں جب آپ اپنے اثاثے ڈکلیئر کردیتے ہیں آپ ٹیکس نہیں پھر چوری کرسکتے ۔ دوسری چیزمیں یہ کہناچاہتاہوں کہ یہ جو انہوں نے کوئٹہ میں بات کی جو بلوچستان میں ایشو ہے یہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اب تک ہمارے قبائلی علاقے کے اندر بھی اوربلوچستان میں جو لوگ بارڈر پر رہتے ہیں وہ ایک قسم کا پرانا ایک traditionبنی ہوئی ہے کہ وہاں سے چیزیں آتی ہیں اسمگلنگ ہوتی ہے اس پر ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم کیسے ان کی مدد کریں تاکہ بیروزگار بھی اگر ہم بند کردیتے ہیں سب کچھ تو ان کے پاس تو اور کوئی وہاں روزگار نہیں ہے تو وہ بھی ہم سوچ رہے ہیں ۔ ابھی افغان صدر آرہے ہیں ان کے ساتھ ہم افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی بات کررہے ہیں کیوں کہ اگر پاکستان میں اسمگلنگ رہے گی تو ہماری انڈسٹری تو کھڑی نہیں ہوگی اور انڈسٹریلائزیشن کے بغیر نہ تو ہم لوگوں کو غربت سے نکال سکتے ہیں نہ روزگار دے سکتے ہیں کیوں کہ انڈسٹریلائزیشن ہوگی تو روز گار ملے گا۔ میں صرف یہ کہ جو کوئٹہ والے ہمارے دوست ہیں انھوں نے جو باتیں کیں میں ا ن سے بالکل اتفاق کرتا ہوں ہم سوچ رہے ہیں کہ قبائلی علاقوں سے بھی لوگ بارڈرز سے اسمگلنگ کو ایک تجارت سمجھتے تھے تو اب جو چینج آچکا ہے فاٹا بھی پختونخواہ کا حصہ ہے اور بلوچستان میں استحکام آرہا ہے اس لیے ہم سوچ رہے ہیں کہ ان کے لیے ہم کوئی ایسی اکنامک زون بنائیں کہ دونوں طرف بارڈر کا کوئی ایسا ذریعہ معاش بنائیں تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو لوگوں کو روزگار ملے۔

میں ساروں سے آج اپیل کررہا ہوں، اپیل کیوں کررہا ہوں ایک تو خیر پاکستان کے لیے ہم نے اپنے ملک کو اٹھانا ہے ، ہمارا ملک جس طرح میں نے کہا ہے ایک کرپشن کی وجہ سے پھر ٹیکس کی چوری کی وجہ سے آج ہم یہاں پہنچ گئے ہیں کہ جو ٹیکس کا ہمارا پیسہ اکٹھا ہوا آدھا چلا گیا قرضوں کے سود ادا کرنے میں۔ جو سب سے بری بیماریاں ہیں تین، کینسر، ذیابیطس اور دل کی بیماریاں، یہ تینوں بیماریاں ہوتی ہیں ذہنی دباؤ سے جو آگے دن آئیں گے ہم مجبور ہوں گے کہ لوگوں سے ٹیکس اکٹھا کریں جو ٹیکس چوری کرے ہم مجبور ہوں گے سزائیں دینے کے لیے ہم اگر آپ کے بے نامی اثاثے ہوئے ہم نے ان کو ضبط کرنا ہے اپنی زندگی آسان کریں یہ کیوں دباؤ میں رہیں سارا وقت آپ کو خوف رہے گا کہ کبھی کوئی آکر دروازے میں کہ یہ دیکھیں آپ کے اثاثے اس لیے اپنی زندگی آسان کریں یہ آپ کے لیے سنہری موقع ہے کہ ہم اس میں سے نکل سکتے ہیں ہم بھی نکل سکتے ہیں اور آپ بھی ایک مشکل وقت سے آگے نکل سکتے ہیں۔

حامد میر: جی بہت بہت شکریہ، حفیظ شیخ وضاحت کردیں بلوچستان والوں کی۔

حفیظ شیخ: میں دوباتیں کہوں گا نمبر ون کے ہماری یہ کوشش ہے کہ بلوچستان کے جو وسائل ہیں وہ سب سے زیادہ شیئر ان کو دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ترقیاتی پروگرامز میں بھی ان کو شیئر دیاجائے سب سے زیادہ تناسب، تیسری چیز وہاں اگر بینکنگ سیکٹر کی کچھ کمزوریاں ہیں تو میں ا پنے دوست کو دعوت دوں گا کہ وہ آئیں اس چیز پر میں اسٹیٹ بینک کے گورنر سے بھی ان کی ملاقات کروا سکتا ہوں، اگر نیشنل بینک اور کچھ اور بینکس کو وہاں خصوصی طور پر زیادہ برانچز کھولنے کے لیے کہا جا سکتا ہے تو وہ میں کرنے کے لیے تیارہوں تاکہ ان کی جو کوالٹی ہے اور فنانشل انٹر میڈی ایشن ہے وہ پنجاب اور کسی صوبے سے کم نہ ہو۔

سوال حامد میر: ابھی بہت سے لوگ ایف بی آر کیساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں، ان کے پاس ٹیکس نمبر بھی نہیں ہے لیکن ملک میں ایک ماحول بن رہا ہے، اگر کوئی ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے تو کیا وہ اس اسکیم کے ساتھ فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

جواب شبر زیدی: بالکل فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جب کوئی پاکستان میں موجود اپنے اثاثے ظاہر کرے گا تو اس کے بعد اس کے لیے ٹیکس فائلر بننا ضروری ہے۔

سوال حامد میر: جن لوگوں نے اپنے ملازمین، رشتہ داروں یا دوستوں کے نام پر اثاثے رکھے ہوئے ہیں وہ اگر اب رضاکارانہ طور پر آپ پر اعتماد کر کے اپنے آپ کو اوپن کرتے ہیں اور سب کچھ ڈکلیئر کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی؟

جواب شبر زیدی: کوئی کارروائی نہیں ہو گی، اگر کسی نے اپنے ملازم کے نام پر جائیداد رکھی ہوئی ہے تو وہ بے نامی جائیداد ہوتی ہے اور بے نامی جائیداد کو بھی اپنے نام ڈکلیئر کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے فنانس بل 2019 میں دو شقیں ڈالی ہیں، ایک تو یہ کہ بے نامی جائیداد ڈکلیئر کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی اور دوسرا یہ ہے اس کے ڈیٹا کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔

سوال حامد میر: میڈیا پر خبریں آ رہی ہیں کہ فنانس بل کے ذریعے ایف بی آر کو چھاپے مارنے کا اختیار مل جائے گا؟

جواب وزیرمملکت ریونیو حماد اظہر: ایسی کوئی بات نہیں ہے ہم چادر اور چار دیواری کو پامال نہیں کریں گے لیکن ہم اس کا جائزہ لیں گے اور اسے ریگولیٹ کریں گے، جب ترامیم مستحکم ہوں گی تو آپ دیکھیں گے کہ اس معاملے کو ہم ریگولیٹ کر رہے ہیں۔

جواب چیئرمین ایف بی آر: جو اسکیم 2018ء میں آئی تھی اس کے کیسز پر بھی ایف بی آر نے کسی بندے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، یہ میں گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں اور اگر کسی کو شکایت ہو تو مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے، میں گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک آدمی کے خلاف بھی جس نے 2018 میں اپنے اثاثے ظاہر کیے ہیں اس کے خلاف کوئی پروسیڈنگ کسی افسر نے نہیں کی اور اس کا حق بھی نہیں ہے۔

سوال حامد میر: 30 جون کی ڈیڈ لائن بہت کم ہے اس کو بڑھایا جائے؟

جواب حماد اظہر: ایمنسٹی اسکیم کی ڈیڈلائن میں توسیع کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہو گا، یہ اسکیم ڈیڑھ ماہ سے وجود میں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بیچ میں عید کی چھٹیاں بھی آئیں جس میں تقریباً 5 دن یا ایک ہفتہ چھٹیوں میں تھا لیکن ابھی بھی ایک ہفتہ پڑا ہے، اسکیم آپ دیکھیں ، بل کی شکل دیکھیں تو ڈیکلیئر کرنا، آن لائن فارم ڈاؤن لوڈ کرنا بہت آسان ہے۔

حماد اظہر: ہم ہفتہ اور اتوار بھی کھلے رہیں گے اور اسٹیٹ بینک بھی کھلا ہو گا۔ اسکیم کی سہولت کے لیے ہم اتوار تک کھلے رہیں گے۔

جواب چیئرمین ایف بی آر: میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی آدمی نے آخری ایمنسٹی میں فائدہ اٹھایا ہے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی، اگر ان کے پاس کوئی ایسی شکایت ہے تو مجھے بتائیں میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا مگر میری معلومات ہیں کہ کسی آدمی کی ڈیکلریشن کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا۔

سوال حامد میر: کراچی کے ایک بہت بڑے تاجر نے ن لیگ کی حکومت کی اسکیم میں کچھ چیزیں ظاہر کیں لیکن ان کو تنگ کیا گیا؟

شبر زیدی: یہاں میں وضاحت کر دوں کہ اگر میرے پاس چار چیزیں ہیں اور پانچویں چیز بعد میں ڈکلیئر ہوتی ہے جو مجھے پتا لگ جاتی ہے تو میرا پانچویں چیز پر سوال کرنے کا حق حاصل ہے، چار پر میں نے کوئی بات نہیں کی ہو گی، میرے پاس چار چیزیں ہیں اور پانچویں چیز میں نے آج معلوم کرلی تو آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ پانچویں پر بھی سوال نہیں کروں ، سوال یہ ہے، آپ جن کی بات کر رہے ہیں وہ بھی یہی کیس ہے، چار چیزیں میں نے ڈیکلیئر کی تھیں پانچویں اثاثوں میں ظاہر ہو گیا، اب آپ مجھے سمجھائیں میں پانچویں کا حق رکھتا ہوں یا نہیں۔

جواب حماد اظہر: میں صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ جس نے پچھلے سال ایمنسٹی اسکیم میں جو چیز ظاہر کی اب اس کی بنیاد پر اسے پکڑا جا رہا ہے، ہمارے فیلڈ آفیسرز کے پاس وہ ڈیٹا ہے ہی نہیں جو پچھلے سال لوگوں نے ڈکلیئر کیا ہے۔

چیئرمین ایف بی آر: جو لوگ آج ٹیکس کے سسٹم میں آنے سے گھبرا رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بعد میں ایف بی آر انہیں تنگ کرے گا، یہ ایک نیچرل بات ہے، ہمارا پورا پراسس یہ ہے کہ ہم اعتماد کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں، اس کیلئے ہم نے کوشش کی ہے کہ جتنا ہو سکے ہم ذاتی مداخلت ختم کر دیں، زیادہ سے زیادہ چیزوں کو آن لائن کر دیں، آٹومیٹڈ ہوں، مثال کے طور پر آئندہ سے سیلز ٹیکس رجسٹریشن آن لائن ہو گی، اس میں کوئی شخصی مداخلت نہیں ہو گی، اسی طرح تین سال کا جو آڈٹ ہے اس کو ر ی آڈٹ نہیں کریں گے، ہمارے اعتماد سازی کے اقدامات میں اگر کوئی خامی ہے تو ہ میں بتائیں ہم اس کو دور کریں گے۔

سوال زاہد اللہ شنواری (سرحد چیمبر): یہ اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم ہے یا ریونیو اکٹھا کرنے کی اسکیم ہے یا ڈاکومینٹیشن آف اکانومی کی اسکیم ہے؟ نظر یہ آرہا ہے کہ یہ ریونیو اکٹھا کرنے کی اسکیم ہے کیونکہ 11 جون کو بجٹ آیا اس کے ساتھ یہ اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم آئی اور 30 جون اس کی آخری تاریخ ہے حالانکہ بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کیلئے ایک سے ڈیڑھ مہینہ لگتا ہے، یہ سینٹرلائزڈ سسٹم ہے تو اس وقت تک تو اس کی اپنی مدت ختم ہوچکی ہے، ان لوگوں کیلئے پھر کیا طریقہ کار ہوگا؟

دوسرا سوال یہ کہ جو غیر ظاہر شدہ سیلز ہیں یا آپ کے کورٹ میں پینڈنگ کیسز ہیں اس کے بارے میں ایمنسٹی اسکیم میں واضح اقدامات نظر نہیں آ رہے اور بہت زیادہ کنفیوژن ہے، اس میں اگر پرنسپل اماؤنٹ شامل نہیں ہے تو ان کے ساتھ کیسا برتاؤ ہو گا یا جہاں پر پوری ان پٹ نہیں دکھائی گئی ہے اور اس پر کیس بنے ہوئے ہیں تو اس کو کیسے ڈیل کرنا ہے؟

چیئرمین ایف بی آر: یہ اسکیم بجٹ کے ساتھ نہیں آئی بلکہ یہ 15 مئی کو آرڈیننس پاس ہوا تھا اس لئے 15 مئی سے قابل عمل تھی، دوسری بات یہ کہ اس اسکیم میں دو چیزیں پرانی اسکیموں سے زیادہ ہیں، جو بات انہوں نے کی وہ ہم نے اضافی فائدہ دیا ہے، پچھلی کسی اسکیم کے اندر غیر ظاہر شدہ سیل کے اوپر کوئی فیصلہ نہیں تھا، ہم نے یہ کہا کہ کسی آدمی نے سیلز ٹیکس نہیں دیا ہے تو وہ دو فیصد سیلز ٹیکس دے کر اس کو بھی ختم کر سکتا ہے، پہلے یہ مسئلہ آرہا تھا کہ اثاثہ تو وائٹ ہو جاتا تھا مگر سیلز ٹیکس نہیں ہوتا تھا وہ بھی ہم نے ختم کردیا ہے، اگر وہ دو فیصد سیلز ٹیکس دیدے تو اس کی پرانی سیل کے بارے میں اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا جس میں بلا واسطہ ان پٹ ٹیکس بھی چھپ ہو جاتا ہے۔ تیسری بات جو انہوں نے کی کہ اگر آپ کا کیس پینڈنگ ہے تو کیس پینڈنگ میں ڈیفالٹر چارج اور پیلنٹی کا پس و پیش بھی اس اسکیم کے اندر موجود ہے۔

شبر زیدی: ان کا سوال شاید یہ ہے کہ ایک کیس میں انہوں نے پرنسپل ادا کر دیا ہے اور صرف ڈیفالٹر چارج اور پینالٹی رہ گئی ہے اس پر بھی کوئی لائبلیٹی نہیں آئے گی مگر اس کو مزید واضح کر دیں گے۔

جواب حماد اظہر: انہوں نے اچھا سوال کیا کہ کیا یہ اسکیم ریونیو جنریشن کے لئے ہے، بالکل بھی نہیں، یہ ایک فیصد بھی ریونیو اکٹھا کرنے کیلئے نہیں ہے، اس میں ہم نے ایسی شقیں ڈالی ہیں کہ یہ ٹیکس میں اضافے کیلئے ہے، پچھلے دس ماہ میں جب سے پی ٹی آئی آئی ہے تین چار چیزیں مختلف ہوئی ہیں جو لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہوا کیا ہے، جیسے کہ مشیر خزانہ نے بتایا کہ بے نامی قوانین اب حرکت میں آچکے ہیں پہلے وہ حرکت میں نہیں تھے، یہ حکومت کو اختیار دیتے ہیں کہ آپ کسی بھی بے نامی پراپرٹی کو مکمل طور پر قرق کر لیں اور 7 سال کم از کم قید بھی ہے، ہم کسی کے ساتھ یہ زیادتی نہیں کرنا چاہتے، ہم لوگوں کو آسان راستہ دینا چاہتے ہیں، ہر ملک جہاں بے نامی قوانین حرکت میں آتے ہیں وہاں پر یہ راستہ دیا جاتا ہے۔

دوسرا پچھلی دو حکومتیں آئیں وہ کہتی رہیں کہ ہم ڈیٹا کو یکجا کر رہے ہیں، کبھی نادرا کی 12 لاکھ کی فیگر آتی تھی کبھی 10 لاکھ کی آتی تھی لیکن پچھلے دس سال میں ڈیٹا کو یکجا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی حکومت نے پہلے 10 ماہ میں ڈیٹا جمع کیا جس کی مدد سے ایف بی آر اور نادرا کے پورٹل پر جا کر کوئی بھی بندہ اپنا ڈیٹا دیکھ سکتا ہے، بینک اکاؤنٹس، یوٹیلٹیز، آپ کی ٹریول ہسٹری، آپ کی پراپرٹی اس کی تفصیلات حکومت کے پاس موجود ہیں آپ جاکر دیکھ سکتے ہیں۔

تیسری چیز جو ہم نے کی، پراپرٹی ویلیو ایشن پر کافی سالوں سے نظر ثانی نہیں ہوئی تھی، کوئی شخص پراپرٹی لینے جاتا تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا سفید پیسہ کالا ہو جاتا تھا، ہم نے پراپرٹی ویلیو ایشنز پر نظر ثانی کی اور اس کو مارکیٹ ریٹ کے قریب تر لے کر آئے۔

آخری چیز کہ آف شور اکاؤنٹس کا ڈیٹا ہمارے پاس آگیا ہے، ایک لاکھ 52ہزار اکاؤنٹس، 28 ممالک اور 10 ممالک سے مزید آ رہے ہیں جو پاکستانیوں کے ہیں۔

سوال حامد میر: اگر ایک شخص ملک سے باہر رہ رہا ہے اور اس کی والدہ پاکستان میں ہیں، وہ ضعیف ہیں، بیٹا اپنی والدہ کو ہر ماہ پیسے بھیجتا ہے اور اس کا کسی پاکستانی بینک میں ڈالر اکاؤنٹ ہے، بوڑھی والدہ گھر سے باہر نہیں آ جاسکتیں اور نا ہی نوکروں پر پر ا عتماد کر سکتی ہیں، وہ کیا کریں وہ اس کو کیسے ظاہر کریں؟

چیئرمین ایف بی آر: انہیں ایمنسٹی اسکیم میں کچھ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ ان کی وائٹ منی ہے، اس پر تو کوئی ٹیکس نہیں ہے، وہ تو بیٹے نے ماں کو بھیجا ہے جو قدرتی تحفہ ہے۔

سوال حامد میر: یعنی بیرون ملک سے بیٹے کے والدہ کو ڈالرز میں بھیجے گئے پیسے ڈکلیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟

مشیر خزانہ حفیظ شیخ: جو بھی زر مبادلہ آ رہا ہیں، اگر ان کیلئے جائز انکم ہے اور وہ باہر اپنے ملک میں ٹیکس دے رہے ہیں تو یہاں پر ان پر ٹیکس نہیں ہے۔

دوسری چیز چونکہ وہ ٹیکس نظام کا حصہ ہیں اس لیے وہ پہلے ہی وائٹ ہیں، یہ فقط وہ ہیں جو آمدنی کما رہے ہوں، مثال کے طور پر باہر سے ایکسپورٹ کر رہے ہوں اور پیسے یہاں رکھ رہے ہوں اور کبھی بھی انہوں نے اس پر ٹیکس نہیں دیا۔

سوال حامد میر: یعنی اوور سیز پاکستانیوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے؟

جواب شبر زیدی: اوورسیز پاکستانیوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے مگر ان اوور سیز پاکستانیوں کو گھبرانے کی ضرورت ہے جن کی آمدنی پر پاکستان میں ٹیکس ہے اور انہوں نے نہیں دیا۔

جواب حفیظ شیخ: اس کی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی پاکستانی پاکستان سے پیسے کما کر ٹیکس نظام سے آؤٹ سائیڈ ہو کر کسی اور ملک مثلاً انگلینڈ چلا گیا ہے اب اس کے پاس وہاں پر ایک ملین پاؤنڈ ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ اس کو وائٹ کرے تو وہ کر سکتا ہے۔

سوال صدف (لندن): میرے پاکستان میں تین چار پلاٹس ہیں جو میرے ہی نام پر رجسٹرڈ ہیں لیکن جب لیے تھے بہت پہلے کی بات ہے کوئی 23 لاکھ کا ایک پلاٹ 10 سال پہلے لیا تھا لیکن پیسے ہنڈی کے ذریعے اور ویسے ہی جب ہم پاکستان گئے تو پیسے لے کر گئے تھے، اس وقت مرحلہ وار ادا کیے تو ان کیلئے ٹیکس وغیرہ کا سسٹم کیسے ہے، ان پر ٹیکس دینا ہوگا؟

جواب چیئرمین ایف بی آر: پہلی بات تو وہ پلاٹ ایک خاص مدت سے پرانا ہے، تین سال سے زیادہ پرانا ہے تو اس پر ٹیکس لاگو نہیں ہے۔

سوال عام یہ آرہا ہے کہ پاکستان میں پراپرٹی کی ظاہر شدہ ویلیو ہمیشہ فیئر ویلیو سے کم تھی تو انہوں نے درحقیقت ایک کروڑ روپیہ دیا ہو گا اور پلاٹ 50 لاکھ روپے پر رجسٹر ہوا ہو گا، تکنیکی اعتبار سے ان کا 50 لاکھ پلاٹ کی شکل میں وائٹ نہیں ہے، ہم نے یہ بھی شق رکھی ہے کہ وہ اس فرق پر ڈیڑھ فیصد دیکر اسے فیئر ویلیو پر لاسکتی ہیں، دوسری صورت میں جب وہ بیچیں گی تو کیپٹل گین کا اماؤنٹ تھوڑا ہوگا لیکن ابھی کوئی مجبوری نہیں ہے۔

سوال حامد میر: اب وہ گولڈ کی بات کررہے ہیں ، ایک اور مجھے پیغام آیا ہے، پہلے میں نے تین ٹن سونے کی بات آپ سے کی تھی ایک مارکیٹ والے ڈکلیئر کرنا چاہ رہے ہیں، اب ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ ان کے اپنے گھر میں ان کی والدہ ، ان کی دادی کے 3 سے 4 کلو سونے کے زیورات پڑے ہوئے ہیں تو وہ بھی ڈیکلیئر کرنے کی ضرورت ہے؟

جواب چیئرمین ایف بی آر: نہیں وہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں شامل ہے لیکن اگر وہ ڈکلیئر کریں گے تو ہم نے اس کی اجازت نہیں دی ہے، ذاتی سونا شامل نہیں ہے۔

جواب وزیرمملکت ریونیو حماد اظہر: اس کی میں وجہ بتاتا ہوں کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے اور یہی وجہ بتاتی ہے کہ یہ اسکیم ریونیو کیلئے نہیں ہے معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے ہے، جب ہم بات کرتے ہیں اپنی بلیک اکانومی کی تو یہ کیش اکانومی ہوتی ہے جہاں پر کیش کے ذریعہ سارے معاملات چلتے ہیں ، بینکنگ سسٹم کے ذریعہ نہیں چلتے، وہ ٹیکسیشن کی نظر سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور بینکنگ سسٹم میں بھی وہ سرکولیشن نہیں آتی، گولڈ اور بانڈز جو خاص طور پر بیئرر بانڈز ہیں ، رجسٹرڈ کی میں بات نہیں کررہا، اس کی اسی لئے ہم نے اجازت نہیں دی تاکہ لوگ اب ان اثاثوں کی طرف آئی جو دستاویز کا حصہ ہیں اور ظاہر شدہ ہیں، اب کوئی شخص لکھ کر دیدے کے میرے پاس گھر میں اتنا گولڈ پڑا ہے، ہم تو نہیں تصدیق کرسکتے ۔

سوال حامد میر: تین ٹن سونے والے جو ہیں؟

جواب وزیرمملکت ریونیو حماد اظہر: تین ٹن سونے والے کرسکتے ہیں ۔

جواب چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی: وہ تو اسٹاک کرتے ہیں۔

حامد میر: سن لیں بھائی، آپ بار بار مجھے میسیج بھیج رہے ہیں ، حماد اظہر اور حفیظ شیخ صاحب کہہ رہے ہیں آپ ڈکلیئر کرسکتے ہیں ۔

وزیرمملکت ریونیو حماد اظہر: میں ذرا بتانا چاہوں گا، اگر میں ایک عام آدمی ہوں میرے گھر میں سونا پڑا ہوا ہے میں نہیں ڈکلیئر کرسکتا۔مجھے وہ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کرنا پڑے گا، نارمل ٹیکس ادا کرنا پڑے گا، اگر کوئی شخص سنارا ہے اس کی جیولری کی دکان ہے تو وہ اسٹاکنگ ٹریڈ میں یعنی اپنی کتابوں میں اس سونے کو ڈکلیئر کرسکتا ہے، میں سمجھتا ہوں زیادہ سونا بھی انہی لوگوں کے پاس ہے ۔

وضاحت حامد میر: ٹھیک ہے، آپ اس کو ڈکلیئر کرسکتے ہیں اور آپ کو بالکل بھی تنگ نہیں کیا جائے گا، یہ جو صاحب ہیں مجھے کہہ رہے ہیں کہ یہ اور بھی کچھ لوگوں کو جانتے ہیں ، اور بھی مارکیٹوں کو جانتے ہیں ۔

جواب چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی: میں یہ واضح کردوں کہ اگر وہ اسٹاکنگ ٹریڈ میں لائیں گے تو اگلے سال اسٹاکنگ ٹریڈ سے کاروبار شروع ہوگا، اس کو وہ وہاں سے دوبارہ نکال نہیں سکتے، ہم کاروبار وہیں سے شروع کریں گے ۔

سوال حامد میر: ان کو اس میں فائدہ ہے نا؟

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی: ہاں جی فائدہ ہے ۔

سوال حامد میر: لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس لئے تاریخ کو بڑھایا جائے کہ یہ ان کو سمجھنے میں بہت دیر لگی ، مجموعی طور پر ہم جو ٹیکس ریٹرنز فائل کرتے ہیں تو کم از کم میراجیسا آدمی بھی فارم خود فل نہیں کرسکتا ، وکیل کی خدمات لینی پڑتی ہیں آپ اس کو آسان بنانے کے لئے کوئی کام نہیں کر رہے؟

جواب حماد اظہر: ہم آسان بنا رہے ہیں ، جو اب اگلا فارم یہ فنانشل جو آخری ڈیٹ اگلے فنانشل ایئر کی اور اس سال کی اس میں انشا اللہ ، لوگ اپنے ٹیلی فون اور اسمارٹ فون سے ریٹرن فارم جمع کراسکیں گے ، ریٹرن فارم اتنا سادہ ہونا چاہیے کہ آپ سادہ سے کاغذ کے ٹکڑے پر آپ حساب لگائیں اور اس کو جمع کراسکیں، اس وقت ہم نے جو قانون بنایا ہے اگر وکلاء کے پاس ٹائم نہیں ہے یا آپ کے ٹیکس پریکٹشنر کے پاس ٹائم نہیں ہے ، ہماری ویب سائٹ پر جائیں، اردو ترجمے میں بھی بل موجود ہے اس کو پڑھیں اس کے بعد ہمارا جو ایسٹ ڈکلیئریشن فارم ہے اس کو ایک دفعہ دیکھیں کسی خاص مدد کی آپ کو ضرورت پڑے گی نہیں بہت سادہ بنایا گیا ہے، آسان بنایا گیا ہے چھ دن ہیں کافی ٹائم کیوں کہ صرف دو ڈھائی گھنٹے کے اندر یا ایک گھنٹے کے اندر آپ یہ پوری ایکسرائز کرسکتے ہیں۔

جواب شبر زیدی: ہمارے پاس یہ چوائس تھی اس کو مینولی کردیتے لیکن مینول کرنے میں وہ سیکریسی اور جو پرابلم تھی وہ ختم ہوجاتی۔

سوال حامد میر: کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ایف بی آر کو ایسٹ ڈکلیئر کیے ہوئے ہیں انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرائے ہوئے ہیں جب وہ ایف بی آر پر جا کر اپنا نام چیک کرتے ہیں تو جو گاڑی انہوں نے ڈکلیئر کی ہوئی ہے وہاں انہیں نظر نہیں آتی اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب شبر زیدی: پورٹل کی بات کر رہے ہیں تو پورٹل ایک انڈیکیٹو ہوسکتا ہے وہ گاڑی مس ہوگئی ہو یا نہیں ہو پورٹل صرف انڈیکٹو ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں اس ## یہ جو ہم نے کمپیوٹر کے تھرو رکھا ہوا ہے اس کا مقصد یہ ہے ہمیں بھی نہیں پتہ کون فائل کر رہا ہے، یہ جو ہم نے سیکریسی کا کانسیپٹ رکھا ہوا ہے وہ اسی لے رکھا ہوا ہے کہ کمپیوٹر کے تھرو ہو اور کسی آدمی کو دوسرے کا نہ پتہ ہو۔

سوال وقاص اکرم ایوان (سنیئر وائس پرزیڈنٹ آف سیالکوٹ چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ): کیا زیرو رجیم کے خاتمے سے ایکسپورٹ بڑھیں گی ؟ جو کہ ایس آر او 1125 ختم کیا گیا ہے اس بجٹ میں اس کے جو اثرات ہیں وہ ایکسپورٹ پر ایک بم گرانے کے مترادف ہیں؟

جواب عبدالحفیظ شیخ: ہمارے بجٹ کی دو بنیادیں ہیں ایک ایکسپورٹ کا بڑھانا دوسرا ہے ریونیو کا بڑھانا اور ہم چاہتے ہیں کہ دونوں پر ہم آپ کے ساتھ مل کر آگے بڑھیں جہاں تک ایکسپورٹ کا ہے تو اب بھی میں یہ دہرادوں کہ ایکسپورٹ پر کسی طرح کا کوئی ٹیکس نہیں لگایا جارہا ہے یہ ایک غلط تاثر پھیل رہا ہے کہ خدانخواستہ کوئی ایکسپورٹ پر ٹیکس لگایا جارہا ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے جہاں تک یہ ایشو ہے کہ سیلز ٹیکس ریفنڈ کا اماؤنٹ بڑھے گا اور بلاک ہوگا اور جو بزنس مین ہے ان کی لکویڈیٹی پھنس جائے گی زیادہ تعداد میں تو ہم بھی اس چیز کو قبول کر رہے ہیں کہ اس کو نہیں ہونے دیا جائے گا تو میں سمجھتا ہوں، ساتھ مل کر انشا اللہ اس معاملے کو حل کریں گے اگر حل نہیں کریں گے تو ایک بہانہ مستقل رہے گا کہ ہم ریونیو کس طرح سے بڑھائیں

جواب شبر زیدی: جب ہم ایک جنرل گریڈ سسٹم پر جارہے ہیں جس میں سب پراڈاکٹ پر سترہ فیصد کا ریٹ ہے جب ایکسپورٹ انڈیسٹریز کے لئے ہم الگ ریٹ رکھتے ہیں تو ہمارا سسٹم ڈیسٹرب ہوتا ہے کیوں کہ صرف اس میں کاٹن ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ آئٹم اور زیادہ بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا نقصان بھی ہوتا ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ لوکل سیل جس طرح شیخ صاحب نے سمجھایا لوکل سیل ٹیکس ایبل ہے تو لوکل سیل کا ان پٹ بھی بعض دفعہ ابیوز ہوتا ہے، ایکسپورٹ سے تو یہ کچھ مسائل ہیں تو یہ کچھ وسائل ہیں جس کی وجہ سے اور جس طرح شیخ صاحب نے کہا اگر ریفنڈ میں مینج نہیں کرسکے تو ہم ریویو کے لیے ہمیشہ دستیاب ہیں۔

سوال حامد میر: کیا اس سے صرف انفرادی طور پر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے یا بڑی بڑی کمپنیاں بھی فائدہ اٹھا سکتی ہیں؟

جواب حماد اظہر: جو ہماری ایسٹ ڈکلیئریشن اسکیم ہے اس میں اور ماضی کی اسکیم میں یہی منفرد چیز ہے کہ آپ اپنی بیلنس شیٹ بھی ریوائس کرسکتے ہیں، اگر آپ کے پاس گڈز ہیں جو آپ سیلز ٹیکس کے اندر ڈکلیئر کرسکتے ہیں تو اس کے اندر وضع کیا گیا ہے طریقہ کہ کتنی اس کی ادائیگی ٹیکس کر کے ان گڈز کو بھی بیلنس شیٹ میں لاسکتے ہیں ہمارے ملک میں بدقسمتی سے کافی دہائیوں سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ لوگ دو، دو کتابیں لے کر چلتے ہیں ایک وہ کتاب جو ایف بی آر کو دیکھانی ہوتی ہے اور وہ کتاب جو حقیقت پر مبنی ہوتی ہے اب وقت آگیا ہے پاکستان بدل گیا ہے دنیا بدل گئی ہے، ٹیکنالوجی بدل گئی ہے ہمارے پاس ڈیٹا آگیا ہے ہمارے پاس بے نامی قوانین آگئے ہیں اب ہمارے پاس بہت سارے ایسے جہاں پر بھی آپ کوئی ٹرانزیکشن کرتے ہیں کیش سے کریں یا بینک سے کریں اس کا ایک سگنیچر رہ جاتا ہے، اکنامی کے اندر وہ ہم ڈکٹیٹ کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور یہ حکومت تو خاص طور پر یقین رکھتی ہے کہ ٹیکس کے اندر بہتری لائے بغیر اب ملک ترقی نہیں کرسکتا تو میں سمجھتا ہوں اب یہ وقت آگیا ہے ہم نے یہ سہولت دے دی ہے کہ کمپنیز اپنی بیلنس شت کوریوائس کرسکتی ہیں اور کمپنیز کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

جواب شبر زیدی: اس میں ایک بات کردوں لسٹیڈ کمپنی نہیں آسکتی پبلک لسٹیڈ بھی نہیں آسکتی اور نان لسٹیڈ آسکتی ہے۔

سوال حامد میر: پبلک لسٹیڈ کمپنی نہیں آسکتی؟

جواب حماد اظہر: جو نان لسٹیڈ ہے نان لسٹیڈ آسکتی ہے ۔

حامد میر : پبلک لسٹیڈ کمپنی نہیں آسکتی جو نان لسٹیڈ ہےوہ آ سکتی ہے، یہ کیلئر کردیا شبر زیدی صاحب نے کہ جو پبلک لسٹیڈ کمپنی ہے اسٹاک ایکسچینج میں وہ اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھاسکتی لیکن جو نان لسٹیڈہے وہ فائدہ اٹھاسکتی ہے۔

مزید خبریں :