سرفراز نہیں تو پھر کون ؟؟

بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں ہمیشہ ہی ایسے وکٹ کیپر کا فقدان رہا ہے جو بہترین بیٹسمین بھی ہو

 پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد گزشتہ کئی عرصے سے تنقید کی زد میں ہیں، ناقدین بطور کپتان ان کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ انفرادی کارکردگی پر بھی سوال اٹھارہے ہیں۔

اس کے علاوہ بیٹنگ میں بطور کپتان سرفراز احمد کا فرنٹ سے لیڈ نہ کرنا، اہم موقعوں پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکٹ گنوادینا، آخر کے اوورز میں خود آکر اننگز کو سنبھالنے کے بجائے ٹیل اینڈرز کو پہلے بیٹنگ پر بھیجنا بھی کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔

کیا سرفراز بیٹنگ کرنے سے ڈرتے ہیں؟ کیا سرفراز احمد کو خود پر بھروسہ نہیں؟ یا سرفراز واقعی بڑے شارٹس نہیں مارسکتے؟ یہ سوالات کرکٹ فینز کے ذہنوں میں موجود ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں ہمیشہ ہی ایسے وکٹ کیپر کا فقدان رہا ہے جو بہترین بیٹسمین بھی ہوں، چونکہ پلیئنگ الیون سے وکٹ کیپر کو کسی حال میں ڈراپ نہیں کیا جاسکتا لہٰذا اگر وکٹ کیپر اچھا بیٹسمین نہ ہو تو اس کا کردار صرف ایک فیلڈر کا رہ جاتا ہے اور ایک اہم بیٹنگ اسپاٹ ضائع ہوتا ہے۔

کمار سنگاکارا، ایڈم گلکرسٹ، برینڈن میک کولم، ابراہم ڈی ویلیئرز وغیرہ وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ بہترین بیٹسمین بھی رہے ہیں— فوٹو: فائل

بہت سے لوگوں کا یہ مؤقف بھی ہے کہ وکٹ کیپر کا اصل کام وکٹوں کے پیچھے ہوتا ہے اور اس کی کارکردگی کو لیے گئے کیچز اور اسٹمپس کی بنیاد پر جانچنا چاہیے تاہم پاکستان کرکٹ کی بیٹنگ لائن اپ کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں وکٹ کیپر کی بطور بیٹسمین کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے۔

دنیا کی دیگر ٹیموں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ان کے پاس ایسے وکٹ کیپر موجود ہیں جو بہترین بیٹسمین بھی ہیں۔ بھارت کے مہندرا سنگھ دھونی، جنوبی افریقا کے کوئنٹن ڈی کاک، انگلینڈ کے جوز بٹلر اور جونی بیئراسٹو (دونوں ہی وکٹ کیپنگ کرلیتے ہیں)، آسٹریلیا کے ایلکس کیرے، بنگلادیش کے مشفیق الرحیم، ویسٹ انڈیز کے شائی ہوپس، زمبابوے کے برینڈن ٹیلر موجودہ دور میں وکٹ کیپر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی بیٹنگ بھی کرتے ہیں۔

دنیا کی دیگر ٹیموں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ان کے پاس ایسے وکٹ کیپر موجود ہیں جو بہترین بیٹسمین بھی ہیں— فوٹو: فائل

اس کے علاوہ ماضی قریب پر نظر دوڑائی جائے تو کمار سنگاکارا، ایڈم گلکرسٹ، برینڈن میک کولم، ابراہم ڈی ویلیئرز وغیرہ وکٹ کیپنگ کے ساتھ ساتھ بہترین بیٹسمین بھی رہے ہیں۔

مگر بد قسمتی سے ماضی میں بھی پاکستان کو وکٹ کیپرز تو ملے مگر کوئی ورلڈ کلاس وکٹ کیپربیٹسمین نہیں ملا۔ وسیم باری سے لیکر کامران اکمل تک پاکستان نے کوئی بہترین وکٹ کیپر بیٹسمین پیدا نہیں کیا۔

آئیں ذرا سرفراز احمد کی بطور کپتان اور ان کی انفرادی کارکردگی پر نظر دوڑاتے ہیں۔

ٖٖکیا سرفراز بیٹنگ کرنے سے ڈرتے ہیں؟ کیا سرفراز احمد کو خود پر بھروسہ نہیں؟ یا سرفراز واقعی بڑے شارٹس نہیں مارسکتے؟ یہ سوالات کرکٹ فینز کے ذہنوں موجود ہیں— فوٹو : پی سی بی 

سرفراز احمد بطور کپتان

کپتانی کی بات کریں تو  چیمپئنز ٹرافی 2017 سے لے کر ورلڈکپ سے قبل تک سرفراز احمد نے 31 ون ڈے میچز میں کپتانی کے فرائض انجام دیے، 15میچز میں کامیابی اور 16میچز میں شکست کھائی۔ 15 میں سے 12کامیابیاں بھی سری لنکا، زمبابوے، افغانستان اور ہانگ کانگ جیسی کمزور ٹیموں کے خلاف تھیں۔

 اگر ان کامیابیوں میں سرفراز احمد کی بیٹنگ کا حصہ دیکھا جائے تو 15 میچز میں سے 7 میں سرفراز کو بیٹنگ کا موقع ملا اور وہ صرف 47 رنز بناسکے۔

سرفراز احمد کی مجموعی کارکردگی

ون ڈے انٹرنیشنل

سرفراز احمد کے ون ڈے کیریئر پر غور کریں تو سرفراز احمد نے 2007 میں بھارت کے خلاف اپنے ون ڈے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ سرفراز احمد اب تک 113 ون ڈے میچز (آخری ون ڈے پاکستان بمقابلہ افغانستان ورلڈکپ) میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں جن میں انہوں نے 34.61 کی اوسط سے 2250 رنز بنائے ہیں۔

ون ڈے انٹرنیشنل میں سرفراز احمد اب تک صرف 2سنچریاں اور 11 نصف سنچریاں اسکور کرسکے ہیں جبکہ ون ڈے کیریئر میں وہ محض 12 چھکے ہی مار سکے ہیں، ان کا بہترین اسکور 105 ہے۔

سرفراز احمد نے آخری بار ون ڈے میں سنچری 2016 میں انگلینڈ کے خلاف اسکور کی تھی جو تقریباً 3 سال پرانی بات ہوچکی ہے— فوٹو: اے ایف پی

آخری 10 ون ڈے (آخری ون ڈے پاکستان بمقابلہ افغانستان) اننگز میں سرفراز نے 28.5 کی اوسط سے صرف 285 رنز بنائے ہیں جن میں 2 نصف سنچریاں شامل ہیں۔

سرفراز احمد نے آخری بار ون ڈے میں سنچری 2016 میں انگلینڈ کے خلاف اسکور کی تھی جو تقریباً 3 سال پرانی بات ہوچکی ہے۔

وکٹوں کے پیچھے سرفراز احمد کی کارکردگی کی بات کی جائے تو انہوں نے اب تک 110 کیچز اور 23 اسٹمپس کئے ہیں۔

ٹیسٹ کرکٹ

2010 میں آسٹریلیا کے خلاف میچ سے ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے سرفراز احمد اب تک 49 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں، سرفراز نے 36.39کی اوسط سے 2657 رنز بنائے ہیں جن میں صرف 3 سنچریاں اور 18 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ٹیسٹ میں سرفراز احمد کا بہترین اسکور 112 ہے۔

سرفراز احمد اب تک ٹیسٹ میچز میں 146کیچز اور 12اسٹمپس کر چکے ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل

دنیا کی نمبر 1 ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے اپنا پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ 2010میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلا۔ سرفراز 55 میچز میں 28.65 کی اوسط سے اب تک صرف 745 رنز بنا سکے ہیں اور ان کا بہترین اسکور 89 رنز ناٹ آؤٹ ہے جبکہ وکٹ کیپنگ میں سرفراز نے 44 شکار کیے ہیں۔

آخری 10 ون ڈے میچز اور سرفراز

آخری 10 ون ڈے (آخری ون ڈے پاکستان بمقابلہ افغانستان) اننگز میں سرفراز نے 28.5 کی اوسط سے صرف 285 رنز بنائے ہیں جن میں 2 نصف سنچریاں شامل ہیں۔

سرفراز احمد نے 17 مئی 2019 سے 29 جون 2019 کے دوران جو 10 ون ڈے میچز کھیلے ان میں سے 7 میچز ورلڈکپ کے تھے۔


سرفراز نہیں تو پھر کون؟

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بطور کپتان سرفراز احمد کے دفاعی فیصلوں اور مایوس کن انفرادی کارکردگی کی بنیاد پر انہیں ٹیم سے مائنس کربھی دیا جائے تو وہ کون ہے جو حقیقی معنوں میں سرفراز کی جگہ لینے کا اہل ہے؟


پاکستان کرکٹ میں ہمیشہ یہ دیکھنے میں آتا ہےکہ ہم کسی کھلا ڑی کا متبادل ساتھ تیار نہیں کرتے، اگر وکٹ کیپنگ کی بات کریں تو ہماری ٹیم میں کبھی بھی کسی ٹور میں 2 کیپرز سیلکٹ نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے سلیکشن کمیٹی کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک ٹور پر 2 کیپرز بھیج کر اپنے وکٹ کیپر پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالنا چاہتے۔ جب معاملات یہ ہوں گے تو کیسے کوئی دوسرا وکٹ کیپر تیار کیا جاسکے گا؟

اگر ہم بھارتی ٹیم کی بات کریں تو ان کی ٹیم میں ایک ہی وقت میں 3 سے 4کیپرز میچ میں کھیل رہےہوتے ہیں ،بھارتی ٹیم میں دھونی، کے ایل راہول، رشبھ  پنٹ قومی ٹیم میں شامل ہوتے ہیں اور یہ سب وکٹ کیپنگ کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اچھے بیٹسمین بھی ہیں۔

سرفراز احمد کا متبادل ڈھونڈا جائے تو مؤثر ڈومیسٹک نظام نہ ہونے کے سبب ایسے زیادہ کھلاڑی نظر نہیں آتے جو اچھے بیٹسمین بھی ہوں اور وکٹ کیپر بھی۔بہرحال دستیاب کھلاڑیوں اور ان کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کون سرفراز احمد کا بہتر متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔

1- محمد رضوان

ناقدین محمد رضوان پر بڑے شارٹس نہ لگانے پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں اور یہی مسئلہ سرفراز احمد کے ساتھ بھی ہے کہ وہ پاور ہٹنگ نہیں کرتے— فوٹو: فائل

سلیکشن کمیٹی 27 سالہ محمد رضوان کو سرفراز کے متبادل کے طور پر ہمیشہ ترجیح دیتی ہے، سر فراز احمد کے ٹیم کے ساتھ نہ ہونے پر محمد رضوان ہی وکٹ کیپنگ کی ذمہ داریاں سمبھالتے ہیں۔متحدہ عرب امارات میں کینگروز کے خلاف سیریز میں جب سرفراز احمد کو آرام دیا گیا  تو اس کا فائدہ محمد رضوان نے بخوبی اُٹھایا اور آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز میں 2 سنچریاں جَڑ دیں۔

مگر ناقدین محمد رضوان پر بڑے شارٹس  نہ لگانے پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں اور یہی مسئلہ سرفراز احمد کے ساتھ بھی ہے کہ وہ پاور ہٹنگ نہیں کرتے حالانکہ پانچویں نمبر پر آنے والے بیٹسمین میں جارحانہ کھیل پیش کرنے کی خصوصیت نہایت ضروری ہوتی ہے۔

دائیں ہاتھ کے بلے باز محمد رضوان نے آسٹریلیا کیخلاف 2 سنچریاں تو اسکور کیں مگر وہ سنچریاں آج کے دور کے لحاظ سے سست قرار دی جاتی ہیں۔ 115 رنز (126) گیندوں پر جبکہ 104 رنز (102) گیندوں پر، یہی وجہ ہے کہ سنچریاں تو اسکور کیں مگر ٹیم کو میچ نا جتوا سکے۔

محمد رضوان کے ون ڈے کیریئر پر روشنی ڈالیں تو وکٹ کیپر بیٹسمین نے 32 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 33.57 کی اوسط سے 705 رنز بنائے اور اس کے علاوہ وکٹ کیپنگ میں 30 شکار بھی کیے ہیں۔ ان کا بیٹنگ اوسط بھی سرفراز احمد کے قریب قریب ہی ہے جو کہ 34.61 ہے۔

ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی

ناقدین محمد رضوان پر بڑے شارٹس نہ لگانے پر بھی شدید تنقید کرتے ہیں— فوٹو: فائل

محمد رضوان کے فرسٹ کلاس کیریئر پر نظر ڈالیں تو محمد رضوان نے 77 فرسٹ  کلاس میچز میں 41.72 کی اوسط سے 4089 رنز اسکور کیے ہیں جس میں 8 سنچریاں اور 21 نصف سنچریاں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ لسٹ اے میں وکٹ کیپر بلے باز 131 میچز میں  49.86 کی اوسط سے 4338 رنز بنا چکے ہیں جس میں 11 سنچریاں اور 21 نصف سنچریاں شامل ہیں۔

تو کیا محمد رضوان سرفراز کے متبادل ہیں؟

اس وقت سرفراز احمد کے متبادل کے طور پر محمد رضوان ہی پی سی بی کی پہلی چوائس ہیں تاہم کوچز کو چاہیے کہ رضوان کو پاور ہٹنگ کی زیادہ سے زیادہ ٹریننگ دیں تاکہ اگر وہ پانچویں نمبر پر بیٹنگ کیلئے آئیں تو بڑے شارٹس مار کر میچ فنش کرسکیں کیوں کہ اس وقت ٹیم کو اچھے فنشر کی اشد ضرورت ہے، بصورت دیگر سرفراز کو بٹھاکر محمد رضوان کو کھلانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔

2- عابد علی

عابد علی نے اپنے ون ڈے ڈیبیو میں آسٹریلیا کے خلاف سنچری اسکور کی تھی— فوٹو : فائل

31 سالہ دائیں ہاتھ کے بلے باز عابد علی کے حوالے سے یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ عابد علی وکٹ کیپر بھی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اب تک انٹرنیشنل میچ میں وکٹ کیپنگ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

عابد علی ابتدائی طور پر ورلڈکپ 2019 کے اسکواڈ میں شامل تھے تاہم بعد میں انہیں اسکواڈ سے باہر کردیا گیا تھا جس پر سلیکشن کمیٹی پر بہت تنقید کی گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عابد علی نے اپنے ون ڈے ڈیبیو میں آسٹریلیا کے خلاف سنچری اسکور کی تھی۔

فرسٹ کلاس کرکٹ میں کارکردگی

عابد علی ڈومیسٹک کرکٹ میں زرعی ترقیاتی بینک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے 102 فرسٹ کلاس میچز میں 38.28 کی اوسط سے 6700 رنز بنائے ہیں جن میں 17 سنچریاں اور 31 نصف سنچریاں شامل ہیں جبکہ وکٹ کیپنگ کرتے ہوئے انہوں نے لسٹ اے کیریئر میں 57 شکار کیے ہیں۔

تو کیا عابد علی سرفراز کے متبادل ہیں؟

عابد علی کو اپنی پرفارمنس کو اتنا بلند کرنا ہوگا کہ وہ سرفراز کے بعد سلیکشن کمیٹی کی پہلی چوائس بن جائیں— فوٹو: فائل

اب بحث یہ ہے کہ کیا عابد علی سرفراز احمد کا متبادل ثابت ہوسکتے ہیں؟ موجودہ صورتحال میں ٹیم منیجمنٹ سرفراز احمد کو مکمل طور پر سائیڈ لائن کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ ممکن ہے کہ ورلڈکپ کے بعد سرفراز احمد کی کپتانی چلی جائے اور اگر ایسا ہوا تو سرفراز کا ٹیم میں رہنا بھی مشکل ہوجائے گا کیوں کہ ان کی انفرادی کارکردگی بھی ایسی نہیں کہ انہیں ٹیم میں برقرار رکھا جائے۔

سرفراز کی غیر موجودگی میں محمد رضوان کو موقع ملے گا اور اگر انہوں نے پرفارم کردیا تو سرفراز کی واپسی خطرے میں پڑ جائے گی اور رضوان بطور وکٹ کیپر بیٹسمین جگہ پکی کرجائیں گے۔ رضوان چونکہ ابھی صرف 27 برس کے ہیں لہٰذا ان کی ریٹائرمنٹ تک عابد علی انتظار نہیں کرسکتے کیوں کہ ان کی عمر تو ابھی ہی 31 برس ہے، مشکل سے ان کے پاس 7 سے 8 برس ہیں۔ اس تناظر میں عابد علی کو اپنی پرفارمنس کو اتنا بلند کرنا ہوگا کہ وہ سرفراز کے بعد سلیکشن کمیٹی کی پہلی چوائس بن جائیں اور رضوان کو بائی پاس کرتے ہوئے ٹیم میں آجائیں۔

دوسری اہم بات یہ کہ عابد علی کا وزن وکٹ کیپر کے لحاظ سے تھوڑا زیادہ ہے، ایک دور تھا جب کرکٹ میں ارجنا رانا ٹنگا اور انضمام الحق جیسے کھلاڑی بھی کھیلا کرتے تھے لیکن موجودہ دور میں فٹنس کا معیار بہت زیادہ بلند ہوگیا ہے، اگر عابد علی کو بطور وکٹ کیپر ٹیم میں جگہ بنانی ہے تو انہیں وزن کم کرنا ہوگا۔

3- عمر اکمل

مستقل پرفارم نہ کرنے اور ڈسپلن کے مسائل کی وجہ سے عمر اکمل ٹیم سے باہر ہوگئے— فوٹو فائل

29 سالہ جارح مزاج بلے باز  عمر اکمل بھی سرفراز کی غیر موجودگی میں بطور وکٹ کیپر ٹیم میں شامل ہونے کے اُمیدوار بن سکتے ہیں، وہ ماضی میں بھی وکٹ کیپنگ کے جوہر دکھا چکے ہیں اور ایک دور وہ بھی تھا جب عمر اکمل کا موازنہ بھارتی کپتان ویرات کوہلی کے ساتھ کیا جاتا تھا۔

 تاہم مستقل پرفارم نہ کرنے اور ڈسپلن کے مسائل کی وجہ سے عمر اکمل ٹیم سے باہر ہوگئے، پی ایس ایل کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ورلڈکپ سے قبل آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں عمر اکمل کو سلیکشن کمیٹی نے ایک بار پھر مو قع دیا گیا لیکن وہ متاثر کرنے میں ناکام رہے۔

آسٹریلیا کیخلاف 5 میچز میں 30 کی اوسط سے انہوں نے صرف 150 رنز بنائے۔

ون ڈے کیریئر

عمر اکمل نے 121 ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے، جن میں دائیں ہاتھ کے بلے باز نے 34.34کی اوسط  اور 86 کے اسٹرائیک ریٹ سے 3194 رنز بنائے ہیں۔

ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی

عمر اکمل کا حالیہ ڈومیسٹک سیزن کافی اچھا رہا، انہوں نے آخری 5 لسٹ اے میچز میں 68.4کی اوسط سے 342 رنز بنائیں،جن میں 2 نصف سنچریاں اور ایک ناقابل شکست سنچری شامل ہیں۔

تو کیا عمر اکمل کو سرفراز کی جگہ شامل کرلیا جائے؟

121 ون ڈے میچز کیھل چکے کھلاڑی کو ایک اور موقع دینا وہ بھی وکٹ کیپنگ کی اضافی ذمہ داری کے ساتھ، عقلمندی نہیں ہوگی— فوٹو: فائل

بات گھوم کر وہیں آگئی، سرفراز کا بیٹنگ اوسط بھی 34 ہی ہے اور عمر اکمل کا بھی، حالانکہ ہمیں وکٹ کیپر کے روپ میں ایسا بیٹسمین چاہیے جو نہ صرف پاور ہٹنگ کرسکے بلکہ ضرورت پڑنے پر ٹیم کو میچ بھی جتواسکے۔ چونکہ سرفراز احمد عموماً پانچویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہیں لہٰذا اگر عمر اکمل ٹیم میں آتے ہیں تو وہ بھی اسی نمبر پر کھیلیں گے۔

عمر اکمل کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ پاور ہٹنگ کرسکتے ہیں لیکن منفی بات یہ ہے کہ ان کی کارکردگی میں بھی دیگر پاکستانی بیٹسمینوں کی طرح تسلسل نہیں۔ 121 ون ڈے میچز کیھل چکے کھلاڑی کو ایک اور موقع دینا وہ بھی وکٹ کیپنگ کی اضافی ذمہ داری کے ساتھ، عقلمندی نہیں ہوگی۔

عمر اکمل کا ایک مسئلہ ان کا رویہ بھی ہے، کوچ مکی آرتھر کھل کر عمر اکمل سے اپنے اختلافات کا تذکرہ کرچکے ہیں۔  بہتر یہی ہوگا کہ پی سی بی اب اس طرح کے تمام اوسط درجے کے کھلاڑیوں کو ماضی کا قصہ بنادے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں نوجوان لڑکوں پر توجہ دے۔

4 - روحیل نذیر

17 سالہ نوجوان روحیل نذیر قومی انڈر 19 ٹیم کے کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین ہیں— فوٹو: فائل

17 سالہ نوجوان روحیل نذیر قومی انڈر 19 ٹیم کے کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین ہیں۔

اس وقت قومی انڈ 19 ٹیم روحیل نذیر کی قیادت میں جنوبی افریقا کی دورے پر ہے۔ قومی انڈر 19کے کپتان اور وکٹ کیپر بیٹسمین نے جنوبی افریقا کے خلاف سریز کے 5 میچز میں 243 رنز اسکور کئے جن میں 3 نصف سنچریاں بھی شامل ہیں۔

روحیل نذیر کا کیا مستقبل ہے؟

روحیل نذیر کی اب تک کی کارکردگی تو اطمینان بخش ہے تاہم ان میں بھی پاور ہٹنگ کا فقدان نظر آتا ہے— فوٹو: فائل

 کم عمر ہونے کی وجہ سے روحیل پاکستان کیلئے زیادہ عرصے تک کھیل سکتے ہیں تاہم وہ زیادہ عرصے تو تب کھیلیں گے جب انٹرنیشنل ٹیم میں جگہ بنا پائیں گے۔

روحیل نذیر کی اب تک کی کارکردگی تو اطمینان بخش ہے تاہم ان میں بھی پاور ہٹنگ کا فقدان نظر آتا ہے۔

آج کے دور میں کرکٹ کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی بھرمار اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ آپ میں گیند کو باؤنڈری کے باہر پھینکنے کی صلاحیت موجود ہو۔

فی الحال تو روحیل نذیر براہ راست سرفراز احمد کا کسی صورت متبادل نظر نہیں آتے البتہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیم انتظامیہ انہیں گروم کرے اور ان کی بیٹنگ پر محنت کرے تو آنے والے وقت میں پاکستان کو ایسا وکٹ کیپر مل سکتا ہے جو ورلڈکلاس بیٹسمین بھی ہوگا۔

حاصلِ مضمون

اس مضمون کا آغا کرنے سے قبل ہمیں یہ لگ رہا تھا کہ شاید باصلاحیت وکٹ کیپر بیٹسمینوں کو نظر انداز کرکے منیجمنٹ سرفراز احمد کو زبردستی ٹیم میں رکھے ہوئے ہے لیکن ڈومیسٹک کرکٹ اور دستیاب آپشنز پر نظر ڈالنے کے بعد افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ دستیاب آپشنز میں سرفراز احمد کا پلڑا ہی سب سے بھاری تھا۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارا ڈومسیٹک ڈھانچہ ہی ایسا ہے جو 34 سے 35 رنز اوسط کے کھلاڑی پیدا کررہا ہے۔

اچھا وکٹ کیپر کیسے ملے گا؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ کرکٹ بورڈ وکٹ کیپر کا انتخاب کرتے ہوئے اس کی بیٹنگ کا بھی جائزہ لے، اگر وکٹ کیپر اچھا بیٹسمین نہیں ہوگا تو ایک بیٹنگ اسپاٹ ضائع ہوگا کیوں کہ وکٹ کیپر ہونے کی وجہ سے اسے ڈراپ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

وکٹ کیپر کے انتخاب کا بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کسی اچھے نوجوان بیٹسمین کو چُنا جائے اور پھر اسے وکٹ کیپنگ کی تربیت دی جائے، اچھے بیٹسمین کو ٹرین کرکے اچھا وکٹ کیپر بنایا جاسکتا ہے لیکن وکٹ کیپر کو اچھا بیٹسمین بنانا مشکل کام ہے۔

اگر ٹیم انتظامیہ چاہتی ہے کہ مستقبل میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں بھی گلکرسٹ، سنگاکارا، دھونی، بٹلر و دیگر جیسے ورلڈکلاس وکٹ کیپر بیٹسمین آئیں تو اسے ڈومیسٹک کرکٹ میں سخت محنت کرنی ہوگی۔ اگر یہ محنت آج سے شروع کی جائے توآئندہ 15 سے 20 برسوں میں پاکستان کے پاس بھی ورلڈکلاس وکٹ کیپر بیٹسمین آسکتے ہیں۔

فٹنس

ایک اور اہم بات جس پر کرکٹ بورڈ کو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے وہ فٹنس ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹیم میں آجانے کے بعد کسی کھلاڑی کا ڈراپ ہونے کا دل نہیں کرتا۔ ٹیم میں رہنے اور غیر ملکی دورے حاصل کرنے کیلئے کھلاڑی اپنی انجری تک چھپانے سے گریز نہیں کرتے اور پھر ایک آدھا میچ کھیل کر ہمت ہار جاتے ہیں۔

خود ٹیم انتظامیہ کی سوچ بھی کچھ مختلف نہیں، وہ بھی فٹنس کو غیر اہم تصور کرتے ہیں حالانکہ موجودہ دور میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے جس کا اندازہ رواں کرکٹ ورلڈکپ میں دیگر ٹیموں کی کارکردگی اور کھلاڑیوں کی فٹنس دیکھ کر کرکٹ بورڈ کو ہوگیا ہوگا۔

حد تو یہ ہے کہ ورلڈ کپ سے قبل چیف سلیکٹر انضمام الحق خود اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں عماد وسیم ابتدائی طور پر فٹنس ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام تھے جنہیں دوبارہ موقع دیا گیا اور اسکواڈ میں شامل کیا گیا، یعنی آسان لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عماد وسیم کو زبردستی ٹیم میں شامل کیا۔

فٹنس کو غیر اہم سمجھنے کا ایک اور واقعہ افغانستان کیخلاف میچ میں دیکھنے کو ملا جب انگلی کی انجری کا شکار وہاب ریاض کو اسکواڈ میں شامل فٹ کھلاڑی محمد حسنین اور حسن علی پر ترجیح دی گئی۔ خوش قسمتی سے وہاب ریاض نے اسکور کرکے ٹیم کو جتوادیا ورنہ جو لوگ آج انہیں ہیرو قرار دے رہے ہیں وہی ایسے القاب و خطابات سے نواز رہے ہوتے کہ جنہیں یہاں لکھنا بھی مناسب نہیں ہوتا۔

مختصر یہ کہ جو غلطیاں ہم اب تک کرتے آئے ہیں اس کا پھل ہمیں آئندہ 15 سے 20 سال تک کاٹنا ہوگا، سرفراز احمد کو کم سے کم اگلے ورلڈکپ اور اس کے بعد محمد رضوان کو سہنا ہوگا، اس دوران اگر ہم نے غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنا قبلہ درست کرلیا تو پاکستان کرکٹ کے حالات بدلیں گے ورنہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔

ورلڈکپ ہر 4 سال بعد ہوتا ہے اور ان چار برسوں کے دوران جتنی بھی کرکٹ ہوتی ہے اور جو بھی کھلاڑی منتخب یا ڈراپ ہوتے ہیں ان سب کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے وہ یہ کہ ٹیم ورلڈ چیمپئن بن جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو 4 سال کی محنت ضائع ہوجاتی ہے۔

پاکستان کو ورلڈ چیمپئن بنے 27 برس گزر چکے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم قوم کو یہ خوشی دینے میں مزید کتنے برس لگائے گی؟ یہ وہ سوال ہے جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ، ٹیم انتظامیہ، سلیکشن کمیٹی، کپتان اور ٹیم کے کھلاڑیوں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔