بلاگ
Time 02 جولائی ، 2019

سن تو سہی ’میداں‘ میں ترا فسانہ ہے کیا

پہلے میچ سے ایسا کیوں محسوس ہوا کہ ناتجربہ کار بچوں کا دستہ دوسری ٹیموں کے بڑے لڑکوں سے کھیلنے کے لیے بھیج دیا گیا — فوٹو: پی سی بی 

بھارتی ٹیم برا کھیلی اور انگلینڈ سے جان بوجھ کر ہاری، مہندرا سنگھ دھونی بھارت کو جتوا سکتے تھے لیکن انہوں نے جانتے بوجھتے سلو بیٹنگ کی، سیمی فائنل تک رسائی کی پاکستانی امیدوں کے آگے بھاری رکاوٹ کھڑی کردی، سب صحیح، سب سچ مان لیا اور تسلیم بھی کرلیا لیکن اس میگا ایونٹ میں آپ کی اپنی کارکردگی کیا رہی؟

پہلے میچ سے ایسا کیوں محسوس ہوا کہ ناتجربہ کار بچوں کا دستہ دوسری ٹیموں کے بڑے لڑکوں سے کھیلنے کے لیے بھیج دیا گیا، یوں لگا جیسے ممولے کو شہباز سے لڑنے کے لیے میدان میں اتاردیا۔

پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز سے شکست ہوئی، اس سے پہلے امام الحق کا بیان دیکھ لیجیے، جی سنچری سے آغاز کروں گا اور بس 98 رنز کی کمی سے سنچری مکمل نہ کرسکے اور پاکستان کی ساری ٹیم 105 رنز پر آؤٹ ہوگئی، سات وکٹوں کی شکست سے ورلڈ کپ میں اپنا کاؤنٹ ڈاؤن شروع کیا۔

انگلینڈ سے جیت کے بعد پھر قوم کی امیدیں جگائیں لیکن پھر آسٹریلیا کے سامنے بلے بازی کے نشان عظمت حسب معمول سب کے سامنے آگئے، 308 کے ہدف کے جواب میں فخر پاکستان، فخر زمان جو کھاتا کھولنے گئے اور انڈا کھا کر واپس ہولیے۔

امام الحق نے 73 گیندوں پر 53 رنز بناکر بتایا کہ ون ڈے میں ٹیسٹ کیسے کھیلتے ہیں، سب سے تجربہ کار شعیب ملک نے 20 برس کا تجربے کا نچوڑ صفر پر آؤٹ ہوکر پیش کیا، یہ میچ بھی مٹھی میں بند ریت کی طرح ہاتھ سے پھسل گیا۔

پھر بھارت کے سامنے بوکھلاہٹ کے نئے تماشے دیکھنے کو ملے، 32 رنز پر روہت شرما کا رن آؤٹ مس نہیں کیا بلکہ میچ بھارت کے ہاتھ میں دے دیا، غلط اینڈ پر تھرو کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرما نے پاکستانی بولنگ لائن کی دھجیاں اڑادیں، نہ حسن علی کا جنریٹر اسٹارٹ ہوا اور نہ وہاب ریاض کی مونچھوں سے روہت شرما گھبرائے، پہلے 140 رنز بناڈالے، پھر پریس کانفرنس میں یہ بھی سنادیا کہ اگر پاکستانی ٹیم کے بیٹنگ کوچ بننے کا موقع ملا تو بتائیں گے کہ بلے بازی کس ہنر کا نام ہے۔

جواب میں وہی دیکھنے کو ملا جس کا ڈر تھا، بھارت نے 337 رنز کا پہاڑ کھڑا کیا اور پاکستانی بیٹنگ لائن کا اونٹ خوف کے پہاڑ کے نیچے آگیا، جنہوں نے اچھی اننگز کھیلنی تھی وہ پاکستانی شائقین کی امیدوں کا دروازہ بند کرکے چلتے بنے، یوں ورلڈ کپ میں بھارت سے شکست کی روایت نہ ٹوٹی۔

پاکستانی ٹیم حسب معمول پورا اتری لیکن توقعات پر نہیں بلکہ خدشات پر جو درست ثابت ہوئے، کرکٹ ورلڈ کپ میں 1992 سے 2019 تک بھارت سے سات شکستوں کے بعد نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوا جیسے پاکستانی ٹیم آٹھواں عجوبہ بن گئی ہو، اس ہار کے بعد حسب معمول اگر مگر چونکہ چناچہ کا کھیل شروع ہوا۔

جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ سے جیت تو گئے لیکن رن ریٹ دیکھنا بھول گئے، ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ کیچ ڈراپ کیے، یہ بھی یاد رکھنا گوارا نہ کیا اور پھر افغانستان سامنے آگیا، یوں سمجھیے جس کو کرکٹ سکھائی اسی نے میچ کے دوران دن میں تارے دکھادیے۔

ایک بار پھر بلے بازوں کو کریز پر رکنا اور ٹھہرنا نہ آیا، 227 رنز کے جواب میں آدھی پاکستانی ٹیم 142 رنز پر پویلین واپس چلی گئی، وہ تو بھلا ہو عماد وسیم اور وہاب ریاض کا جنہوں نے ڈوبتی نیا شکست کے بھنور سے نکالی ورنہ کسر تو ہم نے کوئی چھوڑی نہ تھی۔

سیمی فائنل تک رسائی کے لیے ہم پھر بھارت کے کندھوں پر سوار ہوگئے، دشمن ایک روز کے لیے سجنا بن گیا لیکن کیا ہوا؟ بھارت انگلینڈ سے ہار گیا، اب تھوڑا فلیش بیک میں جائیے 2009 کی چیمپئنز ٹرافی کی یادیں کھنگالیے، تب بھارت کو آپ سے امیدیں تھیں۔

کپتان دھونی نے تو برملا کہا تھا کہ ہماری امیدیں پاکستان کی کامیابی کی ڈور سے بندھی ہیں لیکن تب آپ آسٹریلیا سے سنسنی خیز مقابلے کے بعد ہار گئے اور بھارت ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا اور انگلینڈ کے خلاف شاید وہی دھونی اپنا کھیل کھیل گیا، تو جناب، ایسا تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، کبھی کے دن بڑے،کبھی کی راتیں، ہوتا ہے، چلتا ہے، دنیا ہے، اب بھی وقت ہے اپنے زورِ بازو پر کامیابی سمیٹیے ورنہ خدا نہ کرے شاید آپ کی داستاں بھی نہ ہو داستانوں میں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔