بلاگ

ہفتہ صفائی نہیں کچرا نہ پھینکنے کے شعور کی مہم ضروری

— اے پی پی فائل فوٹو

پاکستان تحریک انصاف کی لیڈرشپ کی جانب سے کراچی میں صفائی مہم زوروں پر ہے۔ کسی حکومت یا ادارے کی جانب سے یہ پہلا موقع نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف بڑے شہروں خاص طور پر کراچی میں اکثر بیشتر وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں، ڈسٹرکٹ میونسپل کمیٹیوں، بعض این جی اوز یا رفاحی اداروں کی جانب سے اکثر و بیشتر "ہفتہ صفائی" بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں شہر کے معروف مقامات، ساحل سمندر، ریلوے اسٹیشنوں، اہم تفریحی یا سرکاری مقامات پر طلبہ و طالبات، این جی اوز یا سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو جمع کرکے صفائی ستھرائی کی جاتی ہے۔ حکومتی یا نجی اہم شخصیات کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا ہے، خوب تشہیری مہم کی جاتی ہے، میڈیا کو بلوایا جاتا ہے۔ مہمانان خصوصی سے جھاڑو لگوا کر علامتی صفائی کرتے ہوئے ان کی تصاویر اور ویڈوز سوشل میڈیا اور ٹی وی نشر جبکہ اخبارات پر نمایاں شائع کی جاتی ہیں۔

اسلام میں صفائی کو آدھا ایمان قرار دیا گیا ہے مگر مہم میں خاص مہمان بنائی گئی شخصیات صفائی نصف ایمان ہے کی گردان سناتے ہوئے شہریوں کو صفائی کی افادیت کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ صفائی کی اہمیت کے حوالے سے شہریوں میں شعور اجاگر کرنے اور صفائی رکھنے کی صورت میں شہریوں کا آدھا ایمان تازہ کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلان تو ایک ہفتے تک صفائی رکھنے کا کیا جاتا ہے مگر مہم کے فیتے کٹنے، میڈیا پر متعلقہ شخصیات کے انٹرویو نشر ہونے کے بعد ایک دو دن میں یہ معاملہ نمٹا دیا جاتا ہے۔ پھر وہی کچرے کے ڈھیر، گندگی اور تعفن شہریوں کا مقدر بن جاتا ہے۔

میں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں دیکھا، پاکستان کی ان مہمات پر بہت سوچا پھر دیکھا کہ ہماری زمین بھی دنیا ہی کی زمینوں جیسی ہے۔ یہ ارض بہت پاک اور صاف ستھری ہے۔ کچرا یا گندگی کوئی خود رو گھاس نہیں ہے کہ خود ہی سڑکوں پر اگ جائے یا کہیں ویران جگہوں سے گلی کوچوں میں آجائے۔ یہ ہم انسانوں ہی کا پھیلایا گیا گند ہوتا ہے، جسے پھیلانے یا پھینکنے سے روکنے کی کبھی بھی کسی بھی فورم کی جانب سے کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔

کسی بھی ہفتہ صفائی یا اس جیسے کسی بھی عمل میں کوئی ایک اقدام بھی ایسا نہیں دیکھا گیا جہاں شہریوں میں "کچرا نہ پھینکنے کا شعور" اجاگر کرنے کی کوشش نظر آئی ہو۔

جب ایک بات طے ہے کہ سرعام کچرا پھینکنے سے ہی گندگی ہوتی ہے تو پھر محض چند دن کی ڈرامے بازی یا کسی این جی او کو ملنے والے ڈالرز ہفتہ صفائی کے نام پر ٹھکانے لگانے کی بجائے عوام الناس کو کچرا پھینکنے سے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی۔ کچرا منظم طریقے سے گھروں میں جمع کرکے اور اسے دنیا بھر میں رائج نظام کے تحت ٹھکانے لگانے کا شعور بیدار کیوں نہیں کیا جاتا۔

کراچی کے اس کچرے سے افغانی بچوں کی جانب سے مطلب کی اشیاء ری سائیکلنگ کے لئے جمع کرنے انتہائی منفع بخش کاروبار کرنے کی حکومتی کوشش کیوں نہیں کی جاتی۔ اگر ابھی بھی کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا تو پھر کبھی نہیں ہوگا۔ علی زیدی اور وسیم اختر صاحب خدارا کچرا صاف کرنے کی مہم کی بجائے شہریوں میں کچرا نہ پھینکنے کا شعور بیدار کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔