07 اگست ، 2019
اسلام آباد: قومی سلامتی کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے، بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود اور تجارتی تعلقات معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہوا جس میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال غور کیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے مسلح افواج کو چوکنا رہنے کی بھی ہدایت کی۔
اجلاس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر داخلہ اعجاز شاہ، وزیر دفاع پرویز خٹک سمیت مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم او اور دیگر حکام شریک ہوئے۔
اجلاس کے اعلامیے میں 5 فیصلوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
1۔ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ
2۔ بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت معطل کی جائے۔
3۔ دوطرفہ معاہدوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ
4۔ مقبوضہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ
5۔ 14 اگست کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منانے اور 15 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے بھارت کی بہیمانہ نسلی نظریات پر مبنی پالیسیاں عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کے لیے تمام سفارتی راستے اختیار کرنے کی بھی ہدایت کی۔
یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کو پاکستان نے مسترد کردیا ہے، اس صورتحال میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کیا گیا جس نے بھارتی اقدام کو مسترد کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے۔
دوسری جانب اس معاملے پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس بھی گزشتہ روز ہوئی جس میں شرکاء نے بھارتی اقدامات مسترد کرنے کے حکومتی فیصلے کی بھرپور تائید کی اور مسئلہ کشمیر پر بھارتی اقدامات مسترد کرنے کے حکومتی اقدامات کی مکمل حمایت کی گئی۔
خیال رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس اتوار کو بھی ہوا تھا جس میں ملکی اعلیٰ سول و عسکری قیادت نے شرکت کی تھی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ بھارتی اقدامات سے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال انتہائی خراب ہورہی ہے اور بھارتی عزائم داخلی و خارجی سطح پر عیاں ہوچکے ہیں، بھارت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے پریشانی میں پُرخطر آپشنز اختیار کرسکتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں اضافی بھارتی فوج جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے، بھارتی عزائم خطے میں تشدد بڑھا کر اسے فلیش پوائنٹ بناسکتے ہیں، بھارت اوچھے ہتھکنڈے چھوڑ کر تنازعے کے پرامن حل کی طرف بڑھے۔
یاد رہے کہ بھارت نے 5 اگست ک و راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا تھا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے اب یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔