10 اگست ، 2019
سرینگر: بھارت کے حالیہ اقدام کے خلاف ہزاروں کشمیری کرفیو کو توڑ سرینگر میں سڑکوں پر نکل آئے۔
بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کو اپنے آئین سے نکال دیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت ایک حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کو روکنے کے لیے 4 اگست کی رات سے انٹرنیٹ، ٹیلی فون سروس بند کرکے کرفیو بھی نافذ کیا جو تاحال برقرار ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد کرفیو توڑ کر نماز جمعہ کے بعد سرینگر کے علاقے سعورا میں نکل آئے اور قابض بھارتی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
اس دوران قابض فوج نے ایوا پل پر مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل اور گولیاں فائر کیں جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔
سعورا اسپتال میں زیر علاج ایک عینی شاہد نے بتایا ہے کہ ایوا پل پر پولیس کی جانب سے فائرنگ اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے متعدد خواتین اور بچوں نے پانی میں چھلانگیں لگائیں۔
ایک پولیس افسر نے میڈیا کو بتایا کہ سعورا میں ہونے والے احتجاج میں 10 ہزار کے لگ بھگ لوگ شریک ہوئے جو کہ کرفیو کے دوران اب تک کا سب سے بڑا احتجاج ہے۔
دوسری جانب نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر کی حریت قیادت سمیت اس مرتبہ بھارت نواز عبدللہ خاندان کے اہم افراد کو بھی گرفتار یا نظر بند کر رکھا ہے جب کہ سیکڑوں دیگر کشمیری شہری بھی عقوبت خانوں میں بند ہیں۔
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔
بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں 6 کشمیری شہید اور 100 کے قریب زخمی ہوئے۔
اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج نے 8 اگست کو کشمیر میں احتجاج کرنے والے تقریباً 500 کشمیریوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے جبکہ حریت قیادت سمیت بھارت کے حامی رہنما محموبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی نظر بند ہیں۔