آزادی،عید اور ملکی منظرنامہ

اس سال یوم آزادی اور عید ساتھ ساتھ ہیں ،دونوں خوشی و انبساط کے تہوار ہیں، یہ صد شکر کے مواقع ہیں ،سوال مگر یہ ہے کہ جو آسودگی،چین و سکون ایسے لمحات کے متقاضی ہوتے ہیں وہ پاکستانیوں کو میسر ہیں۔

آزادی و عید جیسی نعمتوں کے کفران کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن حقائق سے چشم پوشی کی بجائے اس کا اظہار اور پھر تدارک بھی زندہ قوموں کا خاصہ ہوتاہے،تلخ حقیقت یہ ہےکہ پاکستانی عوام72سال بعد بھی آزادی کے ثمرات سے محروم ہیں۔اگرچہ تقریروں میں ہم پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا چکے، لیکن پلاننگ کمیشن کے سروے کے مطابق پاکستان میں 7 کروڑ 77 لاکھ افراد اب بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یوں تو ہر حکومت میں ملکی و عوامی بہتری کے دعوے ہوئے ، مگر ان کا برسرزمین حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔بقول اقبال ساجد۔

پچھلے برس بھی ہوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں

اب کے برس بھی اس کے سوا کچھ نہیں

برطانوی راج سے آزادی لیتے وقت پاکستان و بھارت کی ریاستیں اقتصادی طور پر ایک سی تھیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان ہر میدان میں فرق بڑھا ہے۔دوسری طرف ہمارے آس پاس برطانیہ ہی سے آزادی لینے والے ممالک ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ انگریز اگر دودھ ،دہی خود کھاتا تھا تو لسی تو اس کی رعایا کو بھی مل جاتی تھی لیکن آج آزاد پاکستان میں 95فیصد عوام 5فیصد خواص کے ایسے غلام ہیں کہ انہیں لسی سے بھی محروم کیا جارہا ہے۔

یہ استحصالی طبقات ،اُن عناصر کی اولاد ہیں جن کے متعلق قائداعظم نے فرمایاتھا’’میر ی جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘ ‘ انگریز کےلے پالک، خان بہادروں و جاگیرداروںپر مشتمل ان کھوٹے سکوں نے اوائل آزادی سول وفوجی بیورو کریسی کے ساتھ ملکر ملک وملت پر اقتدار کی ترجیح کا ایسا شرمناک ڈرامہ شروع کیا کہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو بھی یہ کہے بغیر نہ رہ سکے ’’اتنی جلدی تو میں دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں حکمران بدل جاتے ہیں‘‘۔یہی وجہ ہے کہ فیض صاحب کو کہنا پڑا۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لیکر

چلے تھے یار کہ مل جائینگے کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت ستاروں کی آخری منزل

جاگیردارانہ سماج سے وابستہ ان کھوٹے سکوں یعنی حکمران طبقات نے سب سے کاری وار نظام مملکت پر لگایا،برسہابرس آمریت مسلط رہی،وقفے وقفے سے ایسی جمہوریت آئی جس میں آمیزش رہی،آدھا تیتر آدھا بٹیر یعنی بے روح جمہوریت۔خلاصہ یہ ہے کہ عوامی فلاح کے نظام کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا،یہ سب کچھ سامراجی اشیربادسے ہوتا رہا۔ 

یہ عوامل ہمیں دست نگر بنانے کیلئے کافی ٹھہرے، یہی وجہ ہے کہ بھارت آج معاشی طور پر خودمختارہے جبکہ پاکستانی معیشت آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنے کی سکت تک کھو چکی ہے۔استحصالی طبقات نے اقتدار وسائل کو قبضے میں رکھنے کیلئے ایک منصوبے کے تحت نظام تعلیم کو گھرکی لونڈی بنائے رکھا ہے۔

طبقاتی نظام تعلیم ان 5فیصدکا رکھوالاہے ،جبکہ ملک میں غربت کی وجہ سے ایک تو دو کروڑ بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور جو حاصل کررہے ہیں اُن کے لئے بھی مروجہ سرکاری تعلیم کا نظام روشن مستقبل کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کرتا۔تعلیم عوام کی دسترس سے دور ہونے کی وجہ سے پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیاکے221 ممالک کی فہرست میں 180ویں نمبر پر ہے۔ 

صحت کا یہ عالم ہے کہ آغا خان یونیورسٹی کے گزشتہ تھنک ٹینک کے اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان میں 8 کروڑ افراد امراض قلب، ہائپر ٹینشن ، سرطان، ذیابیطس، تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والے مسائل، دماغی امراض اور دیگر غیر متعدی امراض کے ساتھ جی رہے ہیں ۔برطانوی طبی جریدے لین سیٹ میں 2017 میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ پاکستان کی 20 کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں سے تقریباً دو کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ غربت،بے روزگاری اور بدامنی ان امراض کی بنیادی وجوہات ہیں۔پولیو کا مرض پوری دنیاسے ختم ہوچکاہے لیکن پاکستان میں موجود ہے ۔ یونائیٹڈ نیشنل ڈویلپمنٹ پروگرام (اقوام متحدہ )کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 77 فیصد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں لیکن صرف 39 فیصد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔ محکمہ شماریات کےمطابق مہنگائی 5سال کی بلند ترین شرح 9.41فیصد تک پہنچ گئی ہے،اب جب مہنگائی وغربت کا یہ عالم ہوکہ عوام کی غالب اکثریت روٹی ود واکیلئے ترس رہی ہو،تو واضح ہے کہ عید کی خوشیوں سے وہ 5فیصد زردار ہی لطف اندوز ہوسکیں گے جو ہر عید سے ہوتے رہے ہیں ، احمد فراز نے یونہی تونہیں کہا تھا۔

ہلالِ عید ہے گویا کٹی پتنگ جسے

بلند بام خلا ہی میں لوٹ لیتے ہیں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔