ناروے: دہشت گرد کو روکنے والے پاکستانی ہیرو محمد رفیق کا آنکھوں دیکھا احوال

— پاکستانی ہیرو محمد رفیق (بائیں)

ناروے میں پاکستان کے سفیر ظہیر پرویز خان کا کہنا ہے کہ ناروے میں مقیم پاکستانی ہیرو محمد رفیق نےسب پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کردیئے ہیں، جن کی بدولت متعدد لوگ دہشت گردی سے محفوظ رہے۔

ظہیر پرویز خان نے یہ بات گزشتہ روز اوسلو میں پاکستانی سفارتخانے میں محمد رفیق اور اُن کے بیٹے ڈاکٹر محمد حامد رفیق سے ملاقات کے دوران کہی۔

واضح رہے کہ محمد رفیق جو پاکستان ائیرفورس کے سابق چیف وارنٹ آفیسر ہیں اور ان دنوں اپنے بیٹے کے ساتھ ناروے میں قیام پذیر ہیں، نے گزشتہ دنوں عید سے ایک روز پہلے اوسلو کے مضافاتی علاقے ’’بیہرم‘‘ کی النور مسجد پر حملہ آور ہونے والے اکیس سالہ مسلح دہشت گرد ’’فلپس منشوس‘‘ کو اس وقت تک قابو میں رکھا جب تک پولیس وہاں پہنچ نہیں گئی۔

اس واقعے کے بعد محمد رفیق ناروے میں ایک ہیرو سمجھے جارہے ہیں اور ہر روز اس واقعے کے حوالے سے ان کا بیان اور تصاویر نارویجن اخبارات پر شائع ہورہی ہیں۔ ناروے کے ٹی وی چینلز نے بھی ان کے بارے میں خبروں کو خصوصی اہمیت دی ہے۔

سفیر پاکستان نے کہا کہ یہ واقعہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ پوری طرح تربیت یافتہ نوجوان مسلح دہشت گرد کو ایک عمر رسیدہ 65 سالہ پاکستانی قابو کرلیتا ہے۔ محمد رفیق فوری کارروائی کرکے پہلے دہشت گرد کی طرف سے فائر کی ہوئی گولیوں کا نشانہ زائل کردیتے ہیں اور پھر اپنی پوری طاقت سے اس کو دبوچ کر زمین پر گرا لیتے ہیں اور تقریباً آدھے گھنٹے اسے قابو میں رکھتے ہیں اور پھر اسے پولیس کے حوالے کردیتےہیں۔

سفیر ظہیر پرویز خان نے کہاکہ محترم محمد رفیق کے اس کارنامے سے دنیا کو یہ پیغام جاتاہے کہ پاکستانی دنیا کی پرامن قوم ہے اور دہشت گردی سے نفرت کرتی ہے۔

واقعہ محمد رفیق کی زبانی

سفیر پاکستان سے ملاقات کے دوران محمد رفیق نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلے میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ یہ کارنامہ میں نے اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد اور اس کے حبیب (ص) کے صدقے سے انجام دیا ہے۔ انہوں نے واقعے کی تفصیل کچھ یوں بیان کی کہ یہ 10 اگست ہفتے کے دن ظہر کی نماز سے بعد کا وقت تھا۔ وہ اس دن روزہ رکھے ہوئے تھے اور مسجد میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے۔ بہت سے لوگ نماز پڑھ کر جارہے تھے۔ ابھی کچھ افراد مسجد میں موجود تھے۔ اچانک بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے دہشت گرد دو گنوں، ایک پستول و دیگر اسلحہ سمیت ایمرجنسی گیٹ کا شیشہ توڑ کر مسجد میں داخل ہوا۔ وہ جونہی فائر کھولتا ہے تو میں فوراً اپنی نشست چھوڑ کر اس پر جھپٹ پڑتا ہوں، اس کا نشانہ خطا ہوجاتا ہے۔ وہ دوبارہ فائر کرتا ہے، پھر میں اس کا نشانہ زائل کردیتا ہوں اور سامنے کھڑے افراد بچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد میں اسے دبوچ کر زمین پر گرا لیتا ہوں۔

اس کی ایک بندوق اور ایک پستول بھی گر جاتا ہے اور دور کھڑے نمازی حاجی محمد اقبال سے کہتا ہوں کہ اس مسلح فرد کے کندھے پر لگی دوسرے گن بھی اتارلیں۔ محمد اقبال اس کے کندھے سے بندوق اتار کراسی بندوق سے اس کی گردن پر بٹ مارتے ہیں۔ دہشت گرد نیچے سے نکلنے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن میں اُسے اس وقت تک دبوچے رکھتا ہوں، جب تک پولیس موقع پر نہیں پہنچ جاتی۔ اس دوران دہشت گرد نے اپنی انگلیوں کے ناخنوں سے محمد رفیق کے چہرے اور ان کی ایک آنکھ کو زخمی کیا، اس سے ان کے چہرے اور آنکھ پر کچھ خراشیں آئیں۔

اس واقعے کے بعد ناروے میں مسلمانوں میں کافی خوف و ہراس پھیل گیا اور امن پسند نارویجن شہریوں نے عید کے روز اور بعد میں آنے والے جمعہ کو نماز کے دوران مساجد کے باہر علامتی پیرا دے کر مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔

متعدد لوگ محمد رفیق کے گھر بھی گئے اور انہیں اس کارنامے پر مبارکباد دی۔ خاص طور پر ناروے کی پولیس کے اعلیٰ حکام نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پھول پیش کئے۔ اس واقعے کے بعد اس پاکستانی ہیرو کی حوصلہ افزائی کے لیے کئی دنوں تک لوگ ان کے گھر کے باہر پھول رکھ کر جاتے رہے۔

ناروے کے پاکستانیوں کی فعال تنظیم ’’پاکستان یونین ناروے‘‘ جو سماجی و ثقافتی خدمات کے حوالے سے کئی عشروں سے ایک اہم کردار ادا کررہی ہےکے چیئرمین چوہدری قمراقبال نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ محمد رفیق نے اپنی جان پر کھیل کر کئی لوگوں کی جانیں بچائی ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستانی پرامن اور بہادر لوگ ہیں۔

یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں کہ ایک عمررسیدہ شخص نے ایک دہشت گرد کو قابو کرکے اس کے ناپاک منصوبے کو خاک میں ملا دیا اور کئی لوگوں کی جانیں بچائیں۔ دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں اور کوئی بھی مذہب اور مہذب قوم دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتی۔ محمد رفیق کے بیٹے حامد رفیق جو کیمیکل انجیئرنگ میں پی ایچ ڈی ہیں نے بتایا کہ انہیں اور سارے پاکستانیوں کو ان کے بہادر والد پرفخر ہے۔ پروردگار کا شکر ہے کہ اس رب کریم نے میرے والد کو ہمت دی تاکہ وہ انسانی جانوں کو اس دہشت گرد سے بچاسکیں۔

اس نارویجن دہشت گرد کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ اسی علاقے بیہرم کا رہنے والا ہے اور مسجد پر حملے سے قبل اس نے اپنی 17 سالہ لے پالک بہن کو بھی قتل کیا جس کی نعش بعد میں اس کے گھر سے برآمد ہوئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقتولہ اسے مسجد پر حملہ کرنے سے روک رہی تھی۔ پاکستانی ہیرو محمد رفیق کے وکیل عبدالستار ایڈوکیٹ نے بتایا کہ پولیس اس پہلو کی تحقیقات کررہی ہے کہ اس نارویجن نوجوان میں نفرت کا عنصر کہاں سے آیا اور وہ دہشت گردی کی جانب کس طرح راغب ہوا۔

یہ خبر 19 اگست کے روزنامہ جنگ سے لی گئی ہے۔

مزید خبریں :