طوق منگھ یا منگھوپیر!

منگھوپیر کا علاقہ کراچی کے شمال مشرق میں واقع ہے جو خطے کی ارتقائی تہذیب و تمدن کی خاموش داستان بیان کرتا ہے۔

سندھ کے قدیم آثار جن میں ٹیلے، مساجد، مقابر، مزارات وغیرہ شامل ہیں، خطے کی ارتقائی تہذیب و تمدن کی خاموش داستان بیان کرتے ہیں۔اس کے سب سے بڑے شہر کراچی سے 16 کلو میٹر کے فاصلے پر پہاڑی ٹیلوں اور کیکر کی جھاڑیوں و جنگلات سے گھرا ہوا ’’منگھوپیر‘‘کا قصبہ ہے جہاں ہزاروں سال قدیم تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔

 اس قصبے کے بارے میں مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ علاقہ کسی دور میں آباد اور ہنستا بستا شہر تھا جو کسی قدرتی آفت یا حادثے کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سےمٹ گیا لیکن اس کے آثار اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

منگھوپیر کا علاقہ کراچی کے شمال مشرق میں واقع ہے جو اسے بند مراد کے ذریعے لسبیلہ سے ملاتا ہے۔ اس کے ٹیلوں پر واقع چوکنڈی طرز کی منقش قبریں، مکانات، تالاب اور دیگر آثار اس کی تاریخی حیثیت کی گواہی دیتے ہیں۔

قدیم دور میں یہ علاقہ مکران اور ایران کے ساتھ تجارت کے لیے راہ داری کا کام دیتا تھا اور اسلام پھیلنے کے بعد عربوں کی آمد و رفت ایران اور مکران کے راستے ہوتی تھی، ان کے قافلے اسی راستے سے گزر کر اگلے مستقر کی جانب عازم سفر ہوتے تھے۔

 دوران سفر ان کا پڑائو لسبیلہ اور اس کے گردونواح کے قصبات میں ہوتا تھا، جن میں سے ایک منگھوپیر کا قصبہ بھی تھا۔ اس کی پہاڑیوں کے دامن میں موجود شکستہ، ٹوٹی پھوٹی پرانی قبریں صدیوں قدیم ہیں، ان میں چوکنڈی طرز کی قبریں بھی ہیں۔ 

یہاں تمام قبریں جنگ شاہی پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں جو تیز پیلے اور قریب قریب زرد رنگ سے ملتا جلتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق یہاں ایسی قبریں بھی دیکھی گئیں جن پر تلوار بازی، گھڑ سواری اور آات حرب کے نقوش بھی پائے جاتے تھے جب کہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔

 چوکنڈی قبرستان جہاں 500 اور 600 سال پرانی جوکشو خاندان کی قبریں ہیں— 

بعض قبریں چبوترے پر بنائی گئی تھیں جب کہ بعض کے نیچے ایک طرح کے طاق بنائے گئے ہیں جن کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کچھ خواتین کی قبروں پر ڈولی اور جنازے کی علامت گہوارے سے مشابہہ نقوش بھی موجود تھے جن کا مطلب تھا کہ یہ قبریں شادی شدہ خواتین کی ہیں۔

مردوں کی قبروں پر خوبصورت کلاہ نما ڈیزائن بنائے گئے ہیں، اس کے علاوہ تلوار بازی، گھڑسواری اور خنجر وغیرہ کے نقش نگار بھی بنائے گئے ہیں۔ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔ 

ان نقوش سے مرد و زن کی قبروں کی باآسانی شناخت کی جاسکتی ہے۔ یہ قبریں تعمیراتی فن کا اعلیٰ نمونہ ہیں لیکن اس طرز کی زیادہ تر قبریں ناپید ہوچکی ہیں صرف دو قبریں منگھوپیر کے مزار کے سامنے موجود ہیں ان کی حالت بھی مخدوش ہے۔

منگھوپیر کی پہاڑیوں کو ’’طوق منگھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ منگھوپیر کا مقام جو مگر پیر کے نام سے بھی معروف تھا، ہندوؤں کیلئے بھی متبرک حیثیت کا حامل تھا۔ سندھ میں اسلام پھیلنے سے قبل ہندو یاتری اس علاقے میں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے آتے تھے اور وہ تالاب میں موجود مگرمچھوں کی پوجا کرتے تھے خاص کر ان کے سردار کی جسے وہ ’’لالہ جراج‘‘کا اوتار سمجھتے تھے۔

آثار قدیمہ کے ماہرین منگھوپیر کی تہذیب کو کانسی کے دور سے بھی قدیم تہذیب قرار دیتے ہیں۔قدیم آثار کے ماہر، کاربن ڈیٹنگ کے مطابق یہاں ملنے والی ہڈیاں کانسی کے دور (3300-1200 قبلِ مسیح) سے تعلق رکھتی ہیں۔

 ماہرین آثار قدیمہ کو یہاں کچھ پیتل کی قدیم اشیا بھی ملی ہیں جن پر موجود نقش و نگار سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے کانسی دور کا ایک قدیم گاؤں رہا ہوگا جہاں لوگ مگرمچھوں کی عبادت کرتے تھے۔

یہ علاقہ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، ایک پہاڑ کے دامن میں حوض ہے جس میں ہمہ وقت گرم پانی موجود رہتا ہے۔ اس علاقے میں موجود سمہ دور کے مقبرے، مکانات، تاریخی کتبے، تالاب، چشمے تحقیق و تفتیش کرنے والوں کو دعوت فکر و نظر دیتے ہیں۔

 منگھوپیر کو اس لیے بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ سلاطین دہلی کے عہد کے ایک بزرگ، خواجہ حسن سخی سلطان المعروف منگھوپیر مدفون ہیں۔ منگھوپیر بابا یا خواجہ حسن سخی سلطان کون تھے؟ تاریخ اس حوالے سے کچھ روشنی ڈلنے سے قاصر ہے۔

مزید خبریں :