Time 21 اگست ، 2019
دنیا

کشمیر کے معاملے پر ایران کا بھارت کو دوٹوک پیغام


ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے بھارت کو دوٹوک پیغام دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے منصفانہ پالیسی اختیار کرے۔

تہران میں صدر حسن روحانی سے ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ کشمیریوں کو مزید ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا، برصغیر کی تقسیم کے وقت برطانیہ جان بوجھ کر خطے میں ایک زخم چھوڑ گیا جس کی وجہ سے کشمیر میں تنازع جاری رہا۔

ایرانی صدر حسن روحانی اور کابینہ ارکان سے ملاقات میں ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ ایران کے بھارت سے اچھے تعلقات ہیں لیکن ہم بھارت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ کشمیر سے متعلق منصفانہ پالیسی اپنائے اور کشمیریوں کے استحصال کو روکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر برطانوی راج کے شیطانی اقدامات کا نتیجہ ہے، پاک بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کو طول دینے کیلئے برطانیہ نے جان بوجھ کر اسے غیرحل شدہ چھوڑا۔

مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا پس منظر

بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا تھا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔

راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ آئے تھے۔ بھارت نے 6 اگست کو لوک سبھا سے بھی دونوں بل بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔

آرٹیکل 370 کیا ہے؟

بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔

بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔

پاکستان کا رد عمل

پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی اور اقوام متحدہ، سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پر یہ معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان نے فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی اقدم کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر سلامتی کونسل کا اجلاس

پاکستان اور چین کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس 16 اگست کو ہوا جس میں 15 رکن ممالک کے مندوبین اجلاس میں شریک ہوئے۔

یو این ملٹری ایڈوائزر جنرل کارلوس لوئٹے نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی جبکہ اقوام متحدہ کے قیام امن سپورٹ مشن کے معاون سیکریٹری جنرل آسکر فرنانڈس نے بھی شرکاء کو بریفنگ دی۔

مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ایک گھنٹہ 10 منٹ جاری رہا۔

یو این ایجنسی کے جاری بیان کے مطابق کشمیر پر سلامتی کونسل میں براہ راست بات چیت ہوئی، بھارتی زیر انتظام مسلم اکثریتی کشمیر کا خصوصی درجہ تھا لیکن بھارت نے 5 اگست کو وہ حیثیت ختم کردی۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کشمیر پر یو این کی پوزیشن سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ہے، مسئلہ کشمیر کا حتمی درجہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت طے ہونا ہے۔

مزید خبریں :