23 اگست ، 2019
نظریاتی دوست خوش ہیں کہ کٹر کانگریسی شیخ عبداللہ کا گھرانہ سات دہائیوں بعد دو قومی نظریہ کا قائل ہوا ہے۔ نہرو کے دیرینہ دوست شیخ عبداللہ مرحوم کئی برسوں تک مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ رہے۔ کانگریس اور نہرو سے اختلافات شیخ عبداللہ کو اقتدار کے تخت سے اتار کر جیل لے گئے لیکن تمام تر سیاسی اتار چڑھائو کے باوجود شیخ صاحب نے نہ کبھی دو قومی نظریے کے حق میں زبان کھولی، نہ کبھی تقسیمِ ہند اور قائداعظم بارے کلمہ خیر کہا۔
دراصل متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں دو قومی نظریہ کی حمایت قیامِ پاکستان اور قائداعظم کے مؤقف کی حمایت ہے۔ یہ میری طالب علمانہ رائے ہے جس سے اختلاف کا آپ کو پورا حق ہے کہ ہندوستان کے اکثر و بیشتر مسلمان رہنماؤں کی ’’اَنا‘‘ یا انائیں کوہِ ہمالیہ جتنی بلند تھیں اور ان کی انائیں قائداعظم کی قیادت تسلیم کرنے کی راہ میں حائل رہیں چنانچہ وہ مسلم لیگ سے دور رہے۔
کانگریس انہیں ہر حال خوش رکھتی تھی، حددرجہ اہمیت دیتی تھی اور ان کی اَنا کی تسکین کا پورا ساماں کرتی تھی چنانچہ وہ آخری دم تک متحدہ ہندوستان کا راگ الاپتے رہے۔ ان میں نہایت عالم و فاضل بزرگ بھی شامل تھے جو مستقل مزاجی سے اپنی ضد پہ ڈٹے رہے اور دنیا کو یقین دلاتے رہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل ہر لحاظ سے محفوظ اور روشن ہے۔
ان کے برعکس قائداعظم محمد علی جناح کانگریسی اور ہندو رہنماؤں کو قریب سے دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندوستان کا مطلب ہندو راج ہے اور ہندو راج کا مطلب مسلمانوں کو شودر اور اچھوت بنا کر رکھنا ہے۔ قائداعظم اس کا عملی مظاہرہ 1937-39کے چھ صوبوں میں کانگریسی راج کے دوران دیکھ چکے تھے، جسے سمجھنے کے لئے پیرپور رپورٹ کا مطالعہ ضروری ہے۔ مسلمانوں پر نوکریوں، کاروبار اور آگے بڑھنے کے دروازے بند کرنے کے علاوہ مسلمان بچوں کو اسکولوں میں بندے ماترم جیسا کافرانہ و مشرکانہ ترانہ گانا پڑتا تھا اور گاندھی کے بت کی پوجا کرنا پڑتی تھی۔
خدا جانے اس ڈھائی سالہ کانگریسی ہندو راج نے کانگریس کے مسلمان اراکین اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عالم و فاضل حضرات کی آنکھوں سے پردہ کیوں نہ ہٹایا؟ وہ کیوں بضد رہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل روشن ہو گا، اگر اللہ پاک انہیں عمر دراز عطا کرتے اور وہ مودی کے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام، مسلمان خواتین کی بے حرمتی اور ان کے گھروں کو آگ لگانے کے مناظر بھی دیکھتے تو اپنے مؤقف سے تائب نہ ہوتے۔
تاریخ کا سفر بہت طویل ہوتا ہے اور تاریخ اپنے فیصلے دہائیوں بعد اور بعض اوقات صدیوں بعد سناتی ہے۔ مقامِ شکر ہے کہ شیخ عبداللہ کے گھرانے، ان کے بیٹے اور پوتے نے بالآخر دو قومی نظریہ کی حقانیت کو مان لیا ہے اور قائداعظم کی بصیرت آموز قیادت کو تسلیم کر لیا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی حق اور سچ کی حمایت کرتے ہوئے دو قومی نظریے کی حقانیت کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح سچ کہتے تھے۔
کانگریسی علماء کا ذکر شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔ حضرت مولانا مدنی ایک روحانی شخصیت تھے اور انہوں نے طویل عرصہ مدینہ منورہ میں گزارا تھا۔ ہندوستان میں ان کے مریدوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی۔ ان کی کرامات پر ہندوستان میں کتابیں چھپ چکی ہیں۔
میں جب ان کے خاندانی، علمی، مذہبی اور روحانی پس منظر پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ اگر حضرت صاحب کچھ عرصہ مزید حیات رہتے تو وہ بھی پکار اٹھتے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیمِ ہند بہترین فیصلہ تھا اور وہ بھی قائداعظم کی بصیرت اور مستقبل بینی کو خراجِ تحسین پیش کرتے۔
میرے اس احساس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت صاحب روحانی شخصیت تھے اور روحانیت ’’اَنا‘‘ کو تحلیل بلکہ دفن کر دیتی ہے۔ حسد، احساسِ برتری، خود پسندی یا نرگیست اور نفرت روحانیت کی دشمن ہوتی ہیں، اگر ان کا سایہ بھی باطن میں موجود ہو تو روحانیت کی روشنی باطن میں داخل نہیں ہوتی اور جب باطن منور ہوتا ہے تو سفلی جذبات دفن ہو جاتے ہیں۔
حضرت صاحب کا پاکستان بارے کیا خیال یا تصور تھا، اس کا احوال ایک کتاب ’’حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، واقعات و کرامات‘‘ مطبوعہ مکتبہ ندائے شاہی مراد آباد (ہندوستان) کے صفحہ نمبر 136پر یوں درج ہے ’’پاکستان بن جانے کے بعد ایک صاحب نے مجلس میں سوال کیا کہ حضرت پاکستان کے لئے اب آپ کا کیا خیال ہے؟ حسبِ معمول سنجیدگی اور بشاشت کے ساتھ فرمایا کہ مسجد جب تک نہ بنے، اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جب بن گئی تو وہ مسجد ہے‘‘۔
اسی کتاب میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا ایک کشفی خواب درج ہے جس میں انہوں نے 1946میں دیکھا کہ اصحابِ باطن نے ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ کر دیا (صفحہ94) اس فیصلے نے 14اگست 1947کی نصف شب حقیقت کا لباس زیب تن کیا اور عالمی نقشے پر نمودار ہوا۔ میرا حسن ظن ہے کہ اگر حضرت مدنی آج حیات ہوتے تو وہ بھی دو قومی نظریے کو حقیقت اور سچ قرار دیتے لیکن مجھے مولانا ابوالالکلام آزاد کے حوالے سے ایسا کوئی حسن ظن نہیں کیونکہ علم و فضل اور روحانیت الگ الگ سلطنتیں اور شعبے ہیں۔ عالم و فاضل شخص خود محنت، کسب اور گہرے مطالعے سے علم کا ذخیرہ جمع کرتا ہے جبکہ روحانی شخصیت کو روحانیت کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے کچھ علم عطا ہوتا ہے۔
میں نے دنیاوی حوالے سے چٹے اَن پڑھ اولیاء کو علم سے مالا مال اور غیر ملکی زبانیں بولتے دیکھا ہے۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو کئی دہائیاں قبل ایک ایسے مسلمان سے ملاقات یاد آرہی ہے جو ہندوستان کی لوک سبھا (قومی اسمبلی) کا منتخب رکن تھا۔ ہم دونوں ایک ہفتے کے لئے امریکہ میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں شریک تھے، چنانچہ ان سے دوستی ہو گئی۔ ایک روز انہوں نے دل کی بات کہہ دی، وہ مجھے بتا رہے تھے کہ میں صبح صبح اپنے بچوں کو اٹھا کر ریڈیو پاکستان سے ’’قرآن مجید‘‘ پر نشر ہونے والا پروگرام سناتا ہوں۔
گفتگو قدرے طویل ہوئی تو انہوں نے کہا کہ تقسیمِ ہند کے وقت ہمارے پاس چوائس تھی۔ ایک طرف سیکولر ہندوستان اور دوسری جانب دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والا اسلامی پاکستان۔ سیکولر ہندوستان خود ہمارا انتخاب تھا، اس لیے ہم اپنی موجودہ صورتحال کا الزام کسے دیں؟