Time 25 اگست ، 2019
بلاگ

تاریخ سے مقابلہ

عمران خان ملک کے طاقتور ترین وزیراعظم ہیں، مرکز میں ان کی حکومت ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ خیبر پختونخوا میں ان کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا اور بلوچستان سے بھی ان کو مکمل حمایت حاصل ہے۔

 البتہ سندھ حکومت پیپلز پارٹی کے پاس ہے مگر وہاں زیادہ مسئلہ اس لئے نہیں کہ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری جیل میں ہیں اور سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے جعلی اکائونٹس کیس میں ممکنہ طور پر جیل جانے کے خطرے کے پیش نظر وہاں ایک غیر علانیہ خوف موجود ہے جس سے تحریک انصاف کی حکومت بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔

عدلیہ کی طرف سے بھی وزیراعظم عمران خان کے لئے بظاہر کوئی بری خبر نہیں ہے وہاں سے بھی حکومت کی راہ میں کسی قسم کے روڑے نہیں اٹکائے جا رہے اور نہ ہی ریاستی اداروں میں کوئی ایسی شخصیت موجود ہے جس کی جستجو خود کو وزیراعظم سے بڑا ثابت کرنا ہو۔

ماضی میں وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے شکایات کرتے رہے ہیں مگر وزیراعظم عمران خان کو تمام اداروں، انتظامیہ اور ملک کے متقدر حلقوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، تمام ادارے ان کے ساتھ ایک صفحے پر موجود ہیں۔ وزیراعظم جیسا کہتے ہیں ویسا ہوتا ہے۔

ایک سال کی حکومت میں وزیراعظم عمران خان کو ریاستی اداروں کی جانب سے ملنے والی حمایت اور معاونت ایک سے زائد مواقع پر ایسی ہی نظر آئی جیسی بیان کی گئی ہے۔ صرف یہی نہیں، وزیراعظم کو سیاستدانوں سمیت میگا کرپشن مقدمات کی بریفنگ مستقل بنیادوں پر دی جاتی ہے اور گرفتاریوں کا فیصلہ بھی انہی کی زیر نگرانی کیا جاتا ہے یعنی اس وقت اختیارات کا مرکز بظاہر وزیراعظم عمران خان ہی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے مقابلے میں اپوزیشن کی جماعتیں باہمی تقسیم اور عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون ایک بڑاچیلنج ہو سکتی تھی مگر میاں نواز شریف نے پارٹی قیادت گھر میں رکھنے کے لئے اپنے بھائی شہباز شریف کو پارٹی سربراہ بنایا جو آج تک پارٹی قیادت کو درپیش چیلنجوں پر پورا نہ اتر سکے۔ نتیجتاً پارٹی عجیب شش و پنج کا شکار ہے جس کا فائدہ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت موجودہ سیٹ اَپ کو ہو رہا ہے۔ غرضیکہ عمران خان مضبوط سے مضبوط تر ہیں اور فی الحال کوئی قوت ان کو چیلنج کرنے والی نہیں۔

ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی دورِ حکومت کے علاوہ کسی وزیراعظم کو تمام ریاستی اداروں کی جانب سے ایسی حمایت کی کوئی مثال نہیں ملتی جو وزیراعظم عمران خان کو حاصل ہے یعنی عمران خان تاریخ کے منفرد ترین وزیراعظم بن کر سب سے الگ کھڑے ہیں۔

عمران خان نے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف، آصف علی زرداری اور ان کے خاندان کے افراد کو جیلوں میں بھیجیں گے۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے کوئی اور وعدہ تو شاید ہی پورا کیا ہو مگر سابق حکمران خاندانوں کو جیل بھیجنے کا وعدہ ضرور پورا کیا۔ یہ سب کچھ مقتدرحلقوں کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

پاکستان میں کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا، اس پسِ منظر میں وزیراعظم کا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ تاریخ سے ہے، دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم تاریخ سے شکست کھاتے ہیں یا تاریخ کو شکست دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

دو روایات

پاکستان میں دو روایتوں کی اشد ضرورت ہے۔ گزرے کل سے نہیں تو اسے آج سے ہی شروع کرلیا جائے تو اچھا ہوگا۔ اول یہ کہ قانون بنایا جائے کہ سابق وزرائے اعظم وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کے بعد ہماری یونیورسٹیوں میں نئی نسل کو اپنے اپنے ادوار کے تجربات پر لیکچر دیں گے۔ اس عمل سے ہماری نئی نسل کو نہ صرف بہت کچھ سیکھنے میں مدد ملے گی بلکہ تاریخ کے کئی گوشے بھی ریکارڈ پر آ جائیں گے۔

دوم، عام طور پر دنیا بھر میں سیاسی رہنما اور اہم سرکاری عہدیدار اپنی آپ بیتیاں لکھتے ہیں، پاکستان میں یہ روایت بڑی کمزور رہی ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اپنے اقتدار کے دوران وقت تو نہ ملا مگر دونوں جیل میں رہ چکے ہیں اور دونوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ شاید وہ اب بھی نہ لکھیں لیکن انہیں تاریخ کا قرض ادا کرنا ہوگا۔ یوسف رضا گیلانی سابق اسپیکر کی حیثیت سے جیل گئے تو انہوں نے ’’چاہِ یوسف سے صدا‘‘ جیسی زبردست کتاب لکھ ڈالی۔ شاہد خاقان عباسی بھی زیرحراست ہیں، پتا نہیں وہ کتاب لکھتے ہیں یا نہیں؟

لاہور جیل میں سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد قید ہیں۔ وہ سابق دور کے بہت سے اہم واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ سنا ہے آج کل قید میں اپنے غموں کو شعروں کے ذریعے بیان کر رہے ہیں۔

 کاش وہ بھی اپنے تجربات اور سابق دورِ حکومت کے اہم واقعات پر مبنی کوئی کتاب لکھ ڈالیں۔ لاہور جیل میں ہی پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھی آصف ہاشمی بھی قید ہیں۔ وہ بھی تاریخ کے بہت سے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ انہیں بھی چاہئے کہ وہ جیل میں اپنی کہانی ضرور لکھیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔