پاکستان

تعلیمی اداروں میں منشیات کا فروغ

تعلیمی اداروں میں منشیات کے فروغ نے پولیس و انسداد منشیات کے لیے کام کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔

 طلبہ میں آئس سمیت دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی کی جانب سے آواز اٹھانے پر منشیات کے خاتمہ کی جدوجہد میں اینٹی نارکوٹکس فورس، محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول اور محکمہ سوشل ویلفیئر فعال ہوگئے ہیں۔ 

سول سوسائٹی نیٹ ورک برائے انسداد منشیات پاکستان کے چیئرمین اکمل اویسی کہتے ہیں کہ منشیات کی وبا کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر اور تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمہ کے لئے نیٹ ورک پوری ذمہ داری سے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔

 ایک محتاط اندازے کے مطابق وطنِ عزیز میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ صرف ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ سے زائد ہے جب کہ 15 فیصد افراد انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں۔ اس تعداد میں کم عمر بچوں سے لے کر 65 سال کے بزرگ افراد بھی شامل ہیں۔دیکھا گیا ہے ۔

پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں جن کے تحت اب تک منشیات فروشی میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں کے ذریعے سزائیں ہوچکی ہیں۔

 نمائندہ جنگ کو موصولہ اطلاعات کے مطابق محکمہ ایکسائز، کسٹم اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ ان ساری کارروائیوں کے باجود پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔

 اس کے استعمال سے سینکڑوں لوگ کینسر، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ نوجوان نشہ حاصل کرنے کی خاطر ہر قسم کے جرائم کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔

منشیات کے کاروبار میں ملوث اسمگلرز کی پشت پر اثر و رسوخ کے حامل افراد ہوتے ہیں جو قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی اپنے ایجنٹوں کی ضمانت پر رہائی کا بندوبست کر لیتے ہیں۔بعض افراد کے مطابق منشیات فروش یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا کو نشانہ بنا کر نشے کی لت لگا رہے ہیں جب کہ پولیس اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ڈرگ مافیا اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ 

پولیس ڈرگ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے منشیات فروشوں کو پکڑ کر اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے مقدمات درج کر لیتی ہے لیکن ان کےپس پشت کار فرما بااثر افراد پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ یہی وجوہات ہیں جن سے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبا میں منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے کچھ عرصہ قبل تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی کے اس اہم ایشو پر نوٹس لے کر ذمہ دار اداروں سے جواب طلب کیا تھا۔تعلیمی اداروں کے اندر طلباء میں منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر ایک رپورٹ کے مطابق بڑے اور مہنگے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ متوسط درجے کے اسکولوں میں بھی منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

 کئی تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کا عملہ شراب کی فروخت میں ملوث ہے، طلبہ اور طالبات ویک اینڈ پر نائٹ پارٹیوں میں شرکت کرتے ہیں، جہاں شراب اور دیگر منشیات کا استعمال عام ہے۔یہاں چرس اور افیون کے علاوہ تمام نشہ آوراشیاء کا استعمال بھی ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ آئس نام کا ایک نیا نشہ عام ہو گیا ہے۔

 مختلف کیفوں اور کلبوں میں حقے کے ذریعے شیشہ کا نشہ کرنا اونچی سوسائٹی کا فیشن بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں یہ منشیات پہنچتی کس طرح ہے؟ اس بارے میں طلباء کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کے گارڈز منشیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اگر کوئی گارڈ پکڑا بھی جائے تو چند دن کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس آ جاتا ہے۔ 

اس سلسلے میں ایک استاد کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کو چاہئے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں کے باہر خصوصاً چھٹی کے اوقات میں غیر متعلقہ افراد کے کھڑے ہونے پر پابندی عائد کریں۔

اینٹی نارکوٹکس فورس سمیت دیگر اداروں کو فعال بنانے کی ضرور ت ہے۔محکمہ پولیس کی کئی کالی بھیڑیں بھی منشیات فروشی میں ملوث اور منشیات فروشوں کی سر پرست ہیں، جب کہ منشیات فروشوں کو سیاسی شخصیات کی سرپرستی بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔

پولیس کی جانب سے منشیات کے خلاف جتنی بھی کارروائیاں ہوتی ہیں ان میں منشیات کے عادی افراد کو منشیات فروش ظاہر کر کے یا پھر چھوٹے پیمانے پر منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کو گرفتار کیاجاتا ہے۔ 

ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام منشیات کے بدنام سوداگروں کے کوائف حاصل کرکے تمام تھانوں کے انچارجز کو انہیں فوری طور پر قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کریں۔

مزید خبریں :