قذافی اسٹیڈیم کے خاموش ہیرو کی کہانی

کھلاڑی کو ہیرو بنانے میں خاموش ہیروز کا کردار اہم ہوتا ہے جو میچوں کیلئے پچ اور آؤٹ فیلڈ بناتے ہیں— فوٹو: جیو نیوز

کرکٹ گراؤنڈ میں اچھی کارکردگی پر کھلاڑیوں کو داد ملتی ہے اور ایک اچھی کارکردگی کھلاڑی کو عالمی شہرت یافتہ بنا دیتی ہے لیکن کھلاڑی کو ہیرو بنانے میں خاموش ہیروز کا کردار اہم ہوتا ہے جو میچوں کیلئے پچ اور آؤٹ فیلڈ بناتے ہیں۔

گرمی ہو، برفانی ٹھنڈ یا طوفانی بارش گراؤنڈ اسٹاف موسم کے نامساعد حالات کی پرواہ کیے بغیر محنت جاری رکھتے ہیں۔

1986 میں چونیاں کے ایک گاؤں میں زمینداری کرنے والے 28 سالہ نوجوان خان محمد نے قذافی اسٹیڈیم میں پہلی بارقدم رکھا۔ اس دوران انہوں نے 1996 کے ورلڈ کپ فائنل سمیت درجنوں انٹرنیشنل میچوں کیلئے پچ تیار کی۔

61 سالہ خان محمد 1987ء اور 1996 کے ورلڈکپ کیلئے پچز بناچکے ہیں۔ خان محمد کہتے ہیں کہ کرکٹ سے لگن تو بہت تھی مگر کرکٹ میچ کا احوال صرف ریڈیو پاکستان پر سنتا تھا امید تھی کہ وہ ان قومی ہیروز کو قریب سے دیکھ سکیں گا۔

61 سالہ خان محمد کا کہنا ہے کہ جب قذافی اسٹیڈیم میں بطور گراؤنڈ اسٹاف ممبر بھرتی ہوا تو یہاں پچ تیار کرنے کیلئے صرف 2 ملازم تھے مگر آج جدید دور میں یہاں 20 افراد کام کررہے ہیں۔

خان محمد کہتے ہیں کہ ہم 16 پچز پر مشتمل اپنے اسکوائر کو غروب آفتاب سے قبل ڈھانپ دیتے ہیں۔ اس دوران ہم 3 سے 4 لوگ رات بھر یہاں ہی رہتے ہیں تاکہ موسم کی بدلتی رت کی صورت میں ہمہ وقت تیار رہیں۔

خان محمد نے بتایا کہ ایک رات شدید طوفان کے باعث پچ پر پڑا منوں وزنی کوور ہوا کے ساتھ اڑ کر گراؤنڈ کے باہر چلا گیا جس کے باعث اگلے روز پی آئی اے اور حبیب بینک کے درمیان ڈومیسٹک میچ تاخیر سے شروع کرنا پڑا۔

پاکستان سپر لیگ کے تیسرے ایڈیشن کے قذافی اسٹیڈیم میں شیڈول کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے درمیان پلے آف میچ سے قبل بارش اس قدر تیز ہورہی تھی کہ براڈ کاسٹرز نے میچ کے انعقاد کو ناممکن قرار دے دیا تھا مگر چیف کیوریٹر آغا زاہد نے بورڈ کے اعلیٰ حکام سے درخواست کی۔

خان محمد نے بتایا کہ ہماری تجویز پر 2 ہیلی کاپٹرز گراؤنڈ کا پانی سکھانے کیلئے لائے گئے جس کے بعد گراؤنڈ اسٹاف میں شامل تمام اراکین نے ایک ناممکن کام کو ممکن کردکھایا۔

اس اہم میچ کے کامیاب انعقاد اور ان کے بہترین کیریئر کے پیش نظر پاکستان کرکٹ بورڈ نے خان محمد کے کنٹریکٹ میں ایک سال کی توسیع کردی تھی۔

1996 ورلڈکپ کی یاد تازہ کرتے ہوئے خان محمد کا کہنا تھا کہ ایونٹ کے فائنل میچ کے دوران بارش کی پیشگوئی تھی۔ جوں جوں میچ اختتام کو پہنچ رہا تھا ہماری نظریں آسمان پر پھیلے کالے بادلوں پر جمنے لگی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوورز ہاتھ تھامے باؤنڈری لائن پر کھڑے صرف یہ دعا کررہے تھے کہ میچ مکمل ہوجائے اور شائد ہماری دعا قبول ہوگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی سری لنکن کرکٹ ٹیم کے کپتان رانا ٹنگا نے فاتحانہ رنز بنائے تو ساتھ ہی تیز بارش شروع ہوگئی۔ اب گراؤنڈ اسٹاف پچ کو کوور کرچکا تھا اور کھلاڑی ڈریسنگ روم میں پہنچ گئے تھے۔

خان محمد نے کہا کہ گراؤنڈ اسٹاف میدان میں اترنے والی دونوں ٹیموں کیلئے یکساں پچ کی تیاری کرتا ہے۔ جہاں ایک ہی میچ میں کوئی کھلاڑی سنچری اسکور کرتا ہے تو کوئی صفر پر آؤٹ ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انضمام الحق کی نیوزی لینڈ کے خلاف قذافی اسٹیڈیم میں 329 رنز کی اننگز میں کبھی نہیں بھول سکتا جبکہ اسی میچ میں نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم ایک اننگز میں محض 73 رنز پر بھی آؤٹ ہوگئی تھی۔

اسی طرح لیگ اسپنر عبدالقادر کی 1987ء میں انگلینڈ کے خلاف ایک اننگز میں نو وکٹیں بھی خان محمد کی حسین یادوں میں سےایک ہے۔ اس اننگز میں عبدالقادر نے 6 کھلاڑیوں کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کیا تھا۔

قذافی اسٹیڈیم میں 33 سال سے اپنے کام میں مگن رہنے والے خان محمد اپنی کئی خاندانی ذمہ داریوں کو کام کی وجہ سے ادھورا چھوڑ چکے ہیں۔ خان محمد اپنے چچا سمیت چند قریبی رشتہ داروں کے جنازوں میں شرکت نہیں کرسکے کیونکہ وہ اس دوران قذافی اسٹیڈیم میں گراؤنڈ کی دیکھ بھال کرنے میں مصروف تھے۔

کرکٹ سیزن کے شروع ہوتے ہی خان محمد صبح صادق کے وقت قذافی اسٹیڈیم پہنچ جاتے ہیں۔

مزید خبریں :