بھارت: سیکولرازم سے ہندو توا تک

فوٹو: فائل

غالباً یہ فروری1996کی بات ہے۔ دلی میں ایک امن کانفرنس میں شرکت اور تقریر کرنے کا موقع ملا۔ دو باتیں یاد ہیں جو آج کے حالت دیکھ کر صحیح ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ایک بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور دوسرے اس منفی رجحان کو عوامی پذیراتی ووٹ کی شکل میں۔

مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا تو میں نے وہاں کے نامور دانشوروں اور صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان میں انتہا پسندی ضرور ہے مگر اسے عوامی پزیرائی حاصل نہیں ہے جبکہ جو جو یہاں میں یہاں محسوس کر رہا ہوں اسے اگر آپ لوگوں نے نہیں روکا تو یہ جموریت کو بھی نگل لے گی اور سیکولزم کو بھی ’’آج بھی مجھے یاد ہے کہ جب میں تقریر کر کے نیچے آیا تو جناب کالدیپ نائر صاحب نے ایک جملہ کہا ’’Well said boy‘‘

پاکستان اور بھارت کے سیاسی بیانیہ میں یہی بنیادی فرق ہے۔ یہاں دہشت گردی بھی رہی ہے اور انتہا پسندی بھی مگر جب جب لوگوں کو ووٹ دینے کا موقع ملا انہوں نے اسے مسترد کیا۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں صورتحال اسلئے زیادہ خطرناک ہے کہ منفی سیاسی بیانئے کو عوام ووٹ بھی دے رہے ہیں یہ جانے بغیر کے کل شاید ان کا اپنا گھر بھی محفوظ نہ رہ سکے۔

آج کا بھارت گاندھی اور نہرو کے سیکولزم کو مسترد کر کے ہندوتوا کو ووٹ دے رہا ہے۔ مذہبی اقلیتیں زیادہ غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ مسلمان جو سب سے بڑی اقلیت ہیں اس کا خاص نشانہ ہیں جس کی دو بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک1947میں بھارت کا تقسیم ہونا اور پاکستان کا وجود میں آنا اور دوسری وجہ وہاں رہنے والے مسلمانوں کا مسلسل کانگریس کو ووٹ دینا۔ کئی برسوں تک تو شاید یہ مسئلہ نہیں رہا مگر پچھلے دس سالوں میں تیزی سے وہاں انتہا پسندی نے جڑیں پکڑ لیں اس کا نتیجہ وہی نکالنا تھا جو اب وہاں ہورہا ہے۔ RSSاور شیوسینا گروپ نہیں،ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے۔گاندھی کا قتل ہو یا اندرا کا اس میں کوئی مسلمان شریک نہیں تھا اورنا راجیو گاندھی پر خود کش حملہ کرنے والا کوئی کلمہ گو تھا۔ اس کے باوجود اس گروپ کا نشانہ مسلمان اس لئے بھی رہے کیونکہ ان کی اکثریت RSS کی سیاست کو مسترد کرتی رہی ہے۔

آج جو بھی المیہ مقبوضہ کشمیر میں جنم لے رہا ہے وہ ایک تاریخ رقم کر رہا ہے۔ حق خود ارادیت کا مطالبہ بنیادی حقوق کا مطالبہ ہے ' اور جمہوری بھی مگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں یہ جانتےہوئے کہ پابندی یا قید و بند آزادی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔ ز یادہ دور جانے کی ضرورت نہیں جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا کو 27 سال جیل میں رکھا گیا آزاد ہوئے تو اپنے عوام کو آزاد کرا کر۔ آزادی کے بعد بھی اپنے بدترین مخالف کو گلے لگا کر دنیا کو بتایا کہ پرامن جدوجہد کے ذریعے بھی کامیابی ملتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے نہتے۔ نوجوان،خواتین، بزرگ،بدترین تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ نہتے ہونے کے باوجود وہ بھاری ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ مسلسل کرفیو، گرفتاریاں، میڈیا سنسر شپ اس بات کی گواہی ہے کہ کون جیت ر ہا ہے اور کون شکست کھانے کے باوجود شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔پاکستان کا زور صرف اور صرف دنیا کو وہاں جنم لینے والے المیے کو درست اور مظبوط انداز سے اٹھانے پر ہونا چاہئے۔ بدلتے بھارت میں نا صرف سیکولزم کو خطرہ ہے بلکہ پورے جمہوری کلچر کو، ہندو توا کی لہرنے نہ صرف سیاست کو لپیٹ میںلیا ہےبلکہ دانشور،فنکار اور کھلاڑی بھی مجبور نظر آتے ہیں۔

پاکستان نے انتہا پسندی کیخلاف طویل لڑائی لڑی ہے جو تاحال جاری ہے۔ اس میں آسانی اس سے بھی ہوئی ہے کہ یہاں کی بڑی سیاسی جماعتیں روشن خیال نظریے کی حامی رہی ہیں۔

بھارت سے تعلقات بہتر بنانے میں یہاں سیاسیات دانوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ فوجی قیادت میںجتنا آگے جنرل مشرف آگرہ میں گئے اس حد تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ مگر بدقسمتی سے وہاںہندو توا بیانیہ ایل کے ایڈوانی جیسے ذہن رکھنے والے لوگوں کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکا۔

پاکستان اور بھارت میں اصل حل طلب مسئلہ کشمیر ہے۔ اور شملہ معاہدے میں صرف یہیں نہیں لکھا کہ دو طرفہ مذاکرات کےذریعہ اس کو حل کیا جائے بلکہ یہ بھی تحریر ہے کہ اگر ایسا ممکن نا ہو سکے تو مدد لی جا سکتی ہے۔ اسے بھی چھوڑے یہ تو تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ یہ ایک Disputedہے اور بھارت اسے تسلیم کر چکا ہے۔

یہ نہیں کہ ہم سے غلطیاں نہیں ہوئیں، شاید ہماری بعض پالیسیوں کی وجہ سے ماضی میں کشمیر کاز کو نقصان بھی پہنچا جس کی تفصلی میں جائے بغیرہمیں بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔کشمیر کی سیاسی و اخلاقی حمایت ہی آپ کو حل کی طرف لے جا سکتی ہے۔

وزیراعظم عمران کو حال ہی میں بڑی کامیابی اس وقت ملی جب امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش ہوئی اور اب بھی ٹرمپ عمران اور مودی سے رابطے میں ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے وقت ان کوششوں میں کسی حد تک کامیابی ہو۔ پاکستان کے سابق کپتان اپنے کرکٹ کے زمانے سے اپنے مخالف کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شاید اسی لئے انہوں نے مودی جی کیلئے ہٹلر اور RSS کے لئے نازی کی ا صطلاحیں استعمال کیں۔ اب وہ مسلل ٹویٹ اور تقریروں کے ذریعے حملہ آوار ہیں انہیں اس چیز پر افسوس بھی ہے اور غصہ بھی کے انہوں نے ایک سال کے اندر کئی بار ذاتی طور پر مودی جی سے رابطہ کر کے دوستی کا ساتھ بڑھایا، مذاکرات کی دعوت دی،یہاں تک گئے کہ اگر آپ ایک قدم آگے آئیں گے تو ہم دو قدم۔ اب وہ بائونسر کے موڈ میںہیں، اور مودی جی کو ضرور سنیل گواسکر یا کپل دیو سے عمران کے بارے میں جانا چاہئے۔ یہ دونوں عظیم کرکٹر آج بھی عمران کے دوست ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا تھا کہ حلف برداری میں ان کو بلایا۔

بہرحال بات اب پیچھے رہ گئی ہے کیونکہ ہندوتوا فلسفہ امن پر حاوی ہو گیا ہے۔ بھارت سے سکیولزم کا خاتمہ وہاں کی مذہبی اقلیتوں اور جمہوری سوچ رکھنے والوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

چند سال پہلے ایک ملاقات میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمدمرحوم نے ایک نشست میں بھارت میں سکیولرازم کی ضرورت کا دفاع اسی لئے کہاتھا کہ وہاں کے معاشرے میں یہ غنیمت ہے میں نے ازراہ مذاق کہا، قاضی صاحب، ذرا غور کریں تو انتہا پسندی یہاں بھی روکی جا سکتی ہے۔

بھارت کشمیر میں شکست کھا رہا ہے۔کیونکہ دل گولیوں سے نہیں جیتے جاتے۔ حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے۔ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ مودی کا شکریہ کہ اس نے بھارت نواز کشمیریوں کو بھی اپنا مخالف بنالیا۔

مزید خبریں :