31 اگست ، 2019
رواں صدی کے آغاز میں عام خیال یہی تھا کہ اب دنیا پر ترقی پسند راج کریں گے مگر دوسری دہائی میں پانسہ پلٹ گیا۔ براعظموں میں آبادی سے محروم انٹارکٹکا کو چھوڑ دیجیے امریکہ سے شروع کرتے ہیں۔
شمالی امریکہ میں روایتی سیاسی خیالات اور قدامت پسند نظریات کے حامل ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام قومیت کو اجاگر کیا۔ غیر ملکی پناہ گزینوں پر تنقید کی اور جنوری 2017میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے۔ اُن کی جیت رواں صدی کی دوسری دہائی میں سب سے اہم تھی۔ امریکی صدر اوباما کے بعد وائٹ ہائوس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کو میڈیا نے ایک مسخرے کی آمد قرار دیا لیکن عملی طور پر ترقی پسندوں کو ایسی شکست ہوئی کہ ابھی تک کھڑے نہیں ہو سکے۔
جنوبی امریکہ میں سب سے زیادہ بااثر ملک برازیل ہے جہاں رواں سال جنوری میں جائیر بولسونیرو اقتدار میں آئے ہیں۔ سیاسی خیالات میں آپ انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کا چھوٹا بھائی سمجھ لیجیے۔ اپوزیشن پر تابڑ توڑ حملے اور نعرے بازی کی ایسی سیاست ان کا نصب العین ہے جس کا واحد مقصد پیچیدہ مسائل کا حل نہیں بلکہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا ہے۔ وہ جنوبی امریکہ کے ممالک میں بڑے مقبول ہیں۔
یورپ آئیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں قدامت پسندی یا روایتی سیاست کا بخار رواں صدی میں سب سے پہلے رجب طیب اردوان کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوا۔ اردوان کی اگست 2014 میں اقتدار میں آمد رواں صدی کی دوسری دہائی کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ طیب مذہب پرست، روایتی سیاست کے قائل ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک میں اپوزیشن کو پابند سلاسل کیا۔ مخالفین کو جیل کے علاوہ کہیں اور رہنے کی اجازت نہ دی۔ تیسرا آپشن ملک سے فرار تھا جو اکثرچوٹی کے اپوزیشن رہنما اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اردوان نے اقتدار پر گرفت اتنی مضبوط کرلی کہ وہ سال 2016کے وسط میں طاقتور فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کی ایک کوشش بھی ناکام کر چکے ہیں۔
قدامت پسند سیاست کے پورے یورپ پر بھی اثرات پڑے ہیں۔ اسکی تازہ مثال برطانیہ ہے جہاں قدامت پسند وزیراعظم بورس جانسن نے بریگزیٹ یعنی برطانیہ کو یورپ سے نکالنے کے لئے کیے گئے ریفرنڈم کے نتائج پر عملدرآمد کے لئے قدامت پسندانہ طریقہ استعمال کرتے ہوئے برطانوی پارلیمنٹ کو معطل کر دیا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ دنیا بھر میں قائم پارلیمینٹس کی ماں کہلاتی ہے کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ دایاں بازو اسقدر مضبوط ہوگا کہ یورپ کو نگل لے گا۔
براعظم آسٹریلیا میں چلیں جائیں۔ آسٹریلیا میں آجکل لبرل پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسکاٹ ماریسن وزیراعظم ہیں۔ یہ قدامت پسند روایتی خیالات کے حامل مقبول سیاسی نعروں کی بنیاد پر اگست 2018میں اقتدار میں آئے۔ ان کے آنے کے بعد آسٹریلیا میں میڈیا پر بڑا کریک ڈائون ان کی دنیا بھر میں پہچان بنا ہے۔ پچاس ملکوں کے ساتھ سب سے بڑے براعظم ایشیا میں آجائیں تو آپ امریکہ کو معیشت اور خاموش طاقت کے میدان میں للکارتے چین کی قیادت کو دیکھ لیں۔
چینی صدر شی جن پنگ مارچ 2014میں اقتدار میں آئے اور انہوں نے چین کی روایتی سوچ سے ہٹ کر تجارت کے لئے پڑوسی ممالک کو ساتھ ملا کر تجارتی راہداریاں بنانےکی سوچ کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ اس پر عملدرآمد کا آغاز بھی کردیا۔ یہ دنیا پرطاقت سے قبضے کے بجائے معاشی اجارہ داری کاروایتی طریق سیاست کا ایک نیا انداز تھا۔
جنوبی ایشیا میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو دیکھ لیں وہ قدامت پسند ہی نہیں بلکہ انتہا پسند بھی ہیں۔ وہ مئی 2014میں اقتدار میں آئے اور تب سے اب تک جنوبی ایشیا پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔
پاکستان میں عمران خان کو دیکھ لیں۔ سال 2018کے وسط میں اقتدار میں آنے والے عمران خان بھی قدامت پسند دائیں بازو کے سیاستدان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کے خیالات بھی قوم پرستانہ اور مذہبی نوعیت کے ہیں۔
فار ایسٹ ایشیا کا جائزہ لیں تو وہاں سب سے اہم ملک جاپان ہے جہاں شانزو آبے وزیراعظم ہیں۔ یہ ماضی میں بھی وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی جماعت کا نام تو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی ہے مگر یہ شدید قوم پرست اور روایتی نظریات کے حامل ایسے رہنما ہیں جو ایٹم بم بھی بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے خیالات نے پورے فار ایسٹ ایشیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور وہ وہاں تیزی سے مقبول بھی ہورہے ہیں۔
براعظم افریقہ میں چلے جائیں تو وہاں آپ نائیجیریا کے صدر محمدو بواہری یا کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یہ نائیجیریا فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل ہیں جنہوں نے دسمبر 1983کو فوجی بغاوت کر کے حکومت پر قبضہ کیا جو دو سال ہی رہا۔ بعدازاں مارچ 2015کے عام انتخابات کے نتائج میں وہ نائیجیریا کے ایک مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے اور صدر بن گئے۔ ان کا پس منظر جان کر آپ کو پتا چل گیا ہوگا کہ یہ صاحب بھی روایتی سوچ کے حامل قدامت پسند رہنما ہیں۔
دنیا کے تمام خطوں میں موجود ان قدامت پسند رہنمائوں میں چند چیزیں مشترک ہیں۔ اول یہ کہ یہ تمام قوم پرست ہیں۔ دوم یہ کہ بعض اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لئے تہذیبی، لسانی یا مذہبی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں۔
سوم یہ کہ اپنے مخالفین کو ناقابل معافی سمجھتے ہیں چہارم یہ کہ تمام کے تمام نہ صرف میڈیا اور اسکی تنقید کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ آزادی اظہار اور پابندیوں کے حق میں ہیں۔ ان رہنمائوں کے بیانات عقل و فہم کے بجائے ڈرامائی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ یہ تمام رہنما اپنے اپنے ملکوں اور خطوں میں مقبول بھی ہیں مگر دنیا کو پُرامن رکھنے کے لئے باہمی امن کے بجائے تصادم پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی دائیں بازو کی قدامت پسند دنیا ہے۔ جس کے مقابلے میں فی الحال بائیں بازو کے لوگ تقسیم، خوف اور شاید نیند کا شکار ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔