Time 31 اگست ، 2019
بلاگ

سنتا اور سوچتا جا، شرماتا جا

بے بسی کا عالم اس لئے انتہا پر ہے کہ ہر طرف بے حسی کا عالم ہے۔ اشرافیہ سے لے کر عوام تک ’’برپشم قلندر‘‘ اور ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ ہی آرڈر آف دی ڈے ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں، رونا چیخنا چلانا کچھ لوگوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا تو وہ بیچارے کیا کریں؟ کبوتر کے بارے تو میں نہیں جانتا کہ بلی کو دیکھ کر سچ مچ آنکھیں بند کر کے خود کو محفوظ سمجھنے لگتا ہے یا نہیں لیکن اپنے بارے مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ہم لوگ خطرہ دیکھ کر آنکھیں موند لینے میں یکتا ہیں۔

 چشم بددور آج کل ہم سب ملا کر تقریباً 22کروڑ بنتے ہیں اور قدم قدم پر قیامت اور کہرام کا سا سماں ہے۔ پینے کے صاف پانی سے لے کر دو وقت کی روٹی روزگار تک خواب سراب ہو چکے تو میں سوچتا ہوں کہ یہی 22کروڑ منہ اور پیٹ چند سال بعد جب 32کروڑ ہوں گے تو ہو گا کیا؟ زندگی کس بھائو بک رہی ہو گی؟ خریدار کون ہوں گے اور ہر بازار میں کتنے بازار مصر ہوں گے؟ نیلام گھروں میں کس کس شے کی بولی لگ رہی ہو گی؟دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں ڈھاکہ کا 56واں اور کراچی کا 57 واں نمبر ہے۔ ’’لیا جائے گا ہم سے کام دنیا کی امامت کا‘‘۔ کراچی کو کبھی عروس البلاد کہتے تھے، آج یہ بیوہ قسم کی عروس البلاد ہے لیکن بڑھکیں مارنے اور باتیں بنانے میں بہرحال ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ کراچی اور

ڈھاکہ غیرمحفوظ ترین شہروں میں شامل ہیں اور کسی کو یاد تک نہیں کہ مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں سے مومن محفوظ ہوں۔ دشمن تو دشمن ہے ہی لیکن وہ کون ہیں جو ایک دوسرے کی زبانوں اور ہاتھوں سے محفوظ نہیں۔ اب تو یہی دعا ہے کہ خدا مجھے خود میرے اپنے ہاتھوں سے محفوظ رکھے۔معاف کیجئے تمہید لمبی ہو گئی۔ اصل بات یہ کہ قوموں کے عروج اور زوال کا گمشدہ ’’خلاصہ‘‘ بالآخر مجھے مل گیا ہے جس کے مطابق کسی بھی قوم کے عروج یا زوال کا قطعاً کوئی تعلق نہ اس کے مذہب سے ہے، نہ رنگ نسل اور زبان سے نہ کسی مخصوص خطے یا علاقہ سے اور نہ ہی اس بات سے کہ وہ سولائزیشن میسو پوٹیمیا یا مصر وغیرہ کی طرح کتنی قدیم ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مندرجہ بالا کا عروج و زوال کی سانپ سیڑھی سے کوئی لینا دینا نہیں تو پھر وہ کون سے عوامل ہیں جو قوموں کے عروج و زوال، عزت و ذلت میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں تو شاید آپ کو حیرت ہو کہ صرف نو (9) انتہائی ’’معمولی‘‘ ،’’گھٹیا‘‘، ’’عامیانہ‘‘،’’غیر روحانی اور ’’غیر ثوابی‘‘ قسم کی باتیں اور رویے ہیں جو قوموں کو بلندی کی طرف لے جاتے ہیں یا پستی میں غرق کر دیتے ہیں۔ 

مجھے یقین ہے کہ انہیں پڑھتے ہوئے ہم میں سے اکثر کو یقین نہیں آئے گا صرف ہنسی آئے گی لیکن میں نے اپنی بساط مطابق جتنا بھی سوچا، اتنا ہی قائل ہوتا گیا کہ اس نو نکاتی ایجنڈے کے علاوہ باقی سب کچھ ثانوی ہے۔ میں نے اس پر بھی سوچا کہ اس وقت جو اقوام دنیا کی ’’امامت‘‘ کر رہی ہیں، ان میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آج کی ہر باعزت، باوقار، لیڈنگ قوم میں یہ خصوصیات بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ 

پھر میں نے اس بارے بھی غور کیا کہ جب مسلمان عروج پر تھے تو کیا ان میں یہ خصوصیات موجود تھیں، بالکل موجود تھیں اور بدرجۂ اتم موجود تھیں۔ اب چلتے ہیں ان نو (9)پوائنٹس کی طرف اور دیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر ان میں سے کوئی ایک خصوصیت بھی موجود ہے۔نمبر1۔ ETHICS(اخلاقیات)نمبر2۔ INTEGRITY / HONESTY (دیانتداری)نمبر3۔ SENSE OF RESPONSIBILITY (احساس ذمہ داری)نمبر 4۔ RESPECT TO THE LAWS & RULES (قوانین و قواعد کا احترام)نمبر 5۔ RESPECT TO THE RIGHTS OF OTHERS(دوسروں کے حقوق کا احترام)نمبر6۔ WORK LOVING(اپنے کام سے محبت)نمبر7۔SAVINGS & INVESTMENTS (بچت و سرمایہ کاری)نمبر 8۔ WILL FOR SUPER ACTION (کوئی کمال کرنے کی خواہش)نمبر 9۔ PUNCTUALITY(وقت کی پابندی)قارئین!

کسی فلاسفر نے کہا تھا کہ میری زندگی کا ایک بڑا حصہ اس جدوجہد میں صرف ہو گیا کہ میں اپنے اندر سے وہ کوڑا کرکٹ نکال کر خود کو نارمل اور نیوٹرل کر سکوں جو مختلف عنوانات کے تحت میرے اندر انجیکٹ کر دیا گیا تھا یعنی بے ہودہ سیکھے ہوئے کو ’’ان سیکھا‘‘ کر کے ’’زیرو میٹر‘‘ ہونا تاکہ بندہ سوچنے کے عمل کے ساتھ پورا پورا انصاف کر سکے۔ 

میں جانتا ہوں کہ یہ ایک انتہائی مشکل، پیچیدہ بلکہ جان لیوا کام ہے۔ خود کو ہر طرح کے تعصبات سے مکمل طور پر پاک کر کے سو فیصد میرٹ پر مستحکم رہنا کوئی معمولی قسم کا چیلنج نہیں۔ اپیل صرف اتنی ہے کہ خود کو زیادہ سے زیادہ ’’غیرجانبدار‘‘ کر کے غور کریں کہ اگر کوئی قوم مندرجہ بالا 9پوائنٹس کو ان کے وسیع تر مفہوم کے ساتھ پریکٹس کرے تو کیا دنیا کی کوئی طاقت اس کے غلبہ کو روک سکتی ہے؟ پھر اس پر بھی غور فرمائیں کہ کیا ان میں سے کوئی ایک ’’معمولی ترین‘‘ بات بھی ایسی ہے جو ہماری روزمرہ پریکٹس کا حصہ ہے؟ 

کمال ہے کہ نماز کی دیگر تعلیمات میں سے ایک ’’وقت کی پابندی‘‘ بھی ہے لیکن کون ہے جو عام عملی زندگی میں بھی اسے ضروری سمجھتا ہو اور اگر مزید غور کریں تو ان 9کے 9پوائنٹس میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی دین کامل ہمیں تلقین نہ کرتا ہو مثلاً کم تولنا، جھوٹ بولنا، ملاوٹ کرنا، غیبت کرنا، حسد کرنا، خوشامد کرنا وغیرہ وغیرہ INTEGRITYکی نفی ہے۔باقی باتوں پر پھر بات کریں گے کہ فی الحال تو ’’سنتا جا شرماتا جا‘‘، ’’سوچتا جا شرماتا جا‘‘ والا کیس ہی کافی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔