Time 03 ستمبر ، 2019
پاکستان

حکومت ’پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ‘ سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام

فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت ’پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ‘ سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہے اور اب تک صرف 3کروڑ ڈالرز جمع کیے ہیں۔جب کہ اسٹیٹ بینک حکام کا کہنا ہے کہ ڈیم فنڈز کی رقم سے سرکاری ہنڈی میں سرمایہ کاری ہوگی جس سے مجموعی طور پر 10اعشاریہ 9 ارب روپے جمع کیےگئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کے حوالے سے وزیراعظم اور چیف جسٹس پاکستان فنڈز کے ذریعے جمع کیے گئے 10اعشاریہ 9 ارب روپے سے سرکاری ہنڈی(ٹی بیز)میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے تاکہ 14فیصد مارک اپ حاصل کیا جاسکے۔

جب کہ پاکستان بنائو سرٹیفکیٹ (پی بی سی)کے ذریعے حکومت نے اب تک تقریباً 3 کروڑ ڈالرز جمع کیے ہیں یعنی یہ اسکیم بھی مطلوبہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اس حوالے سے جب خصوصی سیکریٹری خزانہ اور سرکاری ترجمان عمر حمید سے رابطہ کیا گیا اور ان سے پی بی سی کے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ سیکورٹیز ٹریڈنگ کا مسئلہ ہے جس میں توسیع کی ضرورت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اسکیم جاری ہے اور 30 جون 2019کو صرف اشتہاری مہم ختم ہوئی ہے۔اسٹیٹ بینک کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے جب رابطہ کیا گیا اور ڈیم فنڈز سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں مجموعی طور پر 10اعشاریہ 9 ارب روپے جمع کیے گئے ہیں اور سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس رقم سے حکومت کی ٹی بیز میں نیشنل بینک آف پاکستان کے ذریعے سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔

اب ڈیم فنڈز کی مد میں جو اضافی فنڈز جمع کیے جائیں گے ان سے ٹی بیز میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ فنڈز کی یہ رقم اگر اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں رہتی تو اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ٹی بیز میں سرمایہ کاری مکمل طور پر ضمانت شدہ ہےاور اس میں کوئی خطرہ نہیں ہے اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس رقم سے منافع حاصل کیا جائے خاص طور پر ایسے موقع پر کہ جب بلند شرح سود کی وجہ سے بینک اچھا منافع دے رہے ہیں۔

آئی ایم ایف شرائط کے تحت حکومتی قرضے مرکزی بینک سے کمرشل بینکوں میں منتقل ہوچکے ہیں ۔اس لیے ٹی بیز کے ریٹس خاصے پرکشش ہیں کیوں کہ بینکار بھی جانتے ہیں کہ حکومت اپنے مالی خسارے کو ختم کرنے کے لیے سخت مقروض ہوچکی ہے۔

پی بی سی پر حکومت نے تین سال اور پانچ سال کی مدت پر بالترتیب 6 اعشاریہ 25 اور 6 اعشاریہ 75 فیصد شرح منافع رکھا ہے، حکومت بیرون ممالک اہم مقامات پر پی بی سی جاری نہیں کرسکتی کیوں کہ وزارت خزانہ نے امریکا ، برطانیہ اور دیگر اہم ممالک سے اجازت نہیں لی ہے۔

تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ پی بی سی میں سرمایہ کاری کے لیے کوئی بڑی مہم نہیں چلائی گئی اور کوئی نہیں جانتا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو اس اسکیم کی جانب راغب کرنے کے لیے حکومت نے کیا سوچ بچار کیا ہے۔ایسے وقت میں کہ جب پاکستان آئی ایم ایف شرائط کے تحت اپنے غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافے کا خواہاں ہے۔ایسے میں پی بی سی جیسی اسکیمیں خاصی سودمند ثابت ہوسکتی ہیں۔

مزید خبریں :