کیا آپ کا ذہنی توازن درست ہے؟

امریکی صحافی ہنٹر ایس تھومپسن نے کہا تھا، فاتر العقل اور صاحبِ عقل افراد میں محض یہ فرق ہے کہ اصحابِ عقل مخبوط الحواس لوگوں کو قید کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ ہوش والوں اور اپنی دنیا میں مست رہنے والوں کے درمیان بہت باریک سی لکیر حائل ہے اور یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ اِس طرف والے پاگل ہیں یا پھر اُس طرف والوں کا دماغی توازن درست نہیں۔ 

اب دیکھیں نا، اے ٹی ایم مشین میں نصب کیمرے کو دیکھ کر منہ چڑا رہے صلاح الدین کو ہم سب ضعیف العقل سمجھ رہے تھے مگر وہ تو بہت شاطر نکلا۔ اس نے بلیدان کے ذریعے سسٹم کو بے نقاب کردیا، اپنی جان قربان کرکے پولیس کلچر کی حقیقت مترشح کردی۔

میں پولیس کے اس بیانیے سے متفق ہوں کہ صلاح الدین پاگل نہیں بلکہ نہایت خطرناک ملزم تھا۔ اسے اے ٹی ایم استعمال کرنا کس نے سکھایا، یہ تو بہت معمولی سا سوال ہے، اصل سوال تو یہ ہے کہ اس کا نام صلاح الدین کس نے رکھا؟ اس نے بے زبانوں کی طرح اشاروں میں بات کرنا کس سے سیکھا، یہ تو تفتیش کا نقطۂ آغاز تھا۔ اس کے بعد تو تفتیش کی سمت ہی بدل گئی ہو گی۔ 

غضب خدا کا، اس نے سوال پوچھ لیا، آپ نے لوگوں کو مارنا کہاں سے سیکھا؟ یقیناً پولیس حکام یہ سوچ کر لرز گئے ہوں گے کہ صلاح الدین نے سوال کرنا کہاں سے سیکھا؟ جو شخص سوال کرتا ہو وہ فاتر العقل کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہاں تو بھلے چنگے لوگ سوال پوچھنے کی جرات نہیں کرتے تو پھر اس نے سوال کرنے کی ہمت کیسے کی؟ 

ایک پل کے لئے تصور کریں اگر صلاح الدین کی دیکھا دیکھی سب کا ذہنی توازن خراب ہو جاتا اور سب ہی سوال کرنے لگتے تو کیا ہوتا؟ اور اگر صلاح الدین کو زندہ چھوڑ دیا جاتا تو نجانے وہ کیا کیا سوال کرتا۔ کس کس سے سوال کرتا؟ آپ نے جرم کے بجائے مجرم سے نفرت کرنا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے بے حسی کہاں سے سیکھی؟ آپ نے ظلم برداشت کرنا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے خاموش رہنا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے جھوٹی پوسٹ مارٹم رپورٹیں بنانا کہاں سے سیکھیں؟ آپ نے ڈھٹائی اور بے شرمی کہاں سے سیکھی؟ آپ نے نوٹس لے کر ہر واقعہ پر مٹی ڈالنا کہاں سے سیکھا؟ 

آپ نے پولیس کلچر تبدیل کرنے کے نام پر ہتھیلی پر سرسوں جمانا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے مظلوم کو ظالم ثابت کرنا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے جھوٹ بولنا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے لوگوں کو پاگل کہہ کر زنجیروں میں باندھنا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے انصاف بیچنا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے قلم کی حرمت کا سودا کرنا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے لوگوں کے بنیادی حقوق غصب کرنا کہاں سے سیکھا؟ 

آپ نے قانون کو موم کی ناک بنانا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے لوگوں کی آنکھوں سے خواب چرانا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے کمزوروں کا خون بہانا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے اپنے ضمیر کو ابدی نیند سلانا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے ہر مرگِ ناگہانی پر چار دن ٹسوے بہانا اور پھر بھول جانا کہاں سے سیکھا؟ آپ نے۔۔۔ سوال در سوال کا یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمتا اور ان سوالات کے نتیجے میں کیسا تلاطم برپا ہوتا؟ 

بس یہی سوچ کر صاحبِ عقل پولیس والوں نے اس خطرناک شخص سے کڑی تفتیش کا آغاز کیا مگر وہ تو ان کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ تیز نکلا۔ سگریٹ سے جسم داغنا، استری گرم کرکے کھال اُدھیڑ دینا، ناخن نوچنا، ہاتھوں میں میخیں گاڑنا اور اس نوع کی دیگر ایذائیں دینا تو خطرناک حوالاتیوں کی تفتیش کے لئے معمول کی بات ہے مگر اس نے پولیس کو بدنام کرنے کے لئے اپنی زندگی کا بلیدان دینے کا فیصلہ کرلیا اور مرگیا۔

میں عالی مرتبت وزیراعظم سے اس واقعہ کا نوٹس لینے کا ضرور مطالبہ کرتا لیکن سنا ہے وزیراعظم اب تک قطر سے واپس نہیں لوٹے۔ 21جنوری 2019کو انہوں نے ٹویٹ کیا تھا ’’ساہیوال واقعے پر عوام میں پایا جانے والا غم و غصہ بالکل جائز اور قابل فہم ہے۔

میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ قطر سے واپسی پر نہ صرف یہ کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی بلکہ میں پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لوں گا اور اس کی اصلاح کا آغاز کروں گا‘‘۔ اگر وزیراعظم قطر سے واپس آجائیں تو بھی انہیں اس حوالے سے زحمت دینا قطعاً مناسب نہیں ہوگا۔ ایک تو وہ بہت مصروف ہوتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اہم نوعیت کے معاملات میں اُلجھے ہوئے ہیں اور دوسرا ان کے نوٹس لینے کا کوٹہ بھی پورا ہو چکا ہے۔ 

وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان نے پہلا نوٹس ٹیبل ٹینس کی پلیئر مہک کے والد کی اپیل پر لیا اور کینسر کے مرض میں مبتلا ٹیبل ٹینس پلیئر کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرنے کہ ہدایت کی۔ 21اگست کو وزیراعظم نے نوٹس لیا اور 13ستمبر کو خبر آئی کہ نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا۔

اس کے بعد وزیراعظم نے کئی اہم معاملات پر نوٹس لیا؛ مثال کے طور پر انہوں نے خیبر پختونخوا میں پولیو وائرس پھیل جانے کا نوٹس لیا، روٹی اور نان کی قیمت بڑھ جانے کا نوٹس لیا، زرتاج گل کی بہن کو سفارش پر نوکری دیئے جانے کا نوٹس لیا، روپے کی قدر میں کمی کا نوٹس لیا، ہائی وے چیک پوسٹوں پر بھتہ لئےجانے کی خبر کا نوٹس لیا، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی ایک صحافی سے ہاتھا پائی کا نوٹس لیا، پتوکی میں تہرے قتل کی واردات کا نوٹس لیا، میانوالی میں پانی کی قلت کا نوٹس لیا، ٹرانسپورٹروں کو ہراساں کئے جانے کا نوٹس لیا، گیس اور بجلی کے بلوں میں اوور بلنگ کا نوٹس لیا.

جبکہ اس سلسلے کا آخری نوٹس انہوں نے تب لیا جب ان کی سفارش پر صدر عارف علوی نے بڑے صنعتکاروں کو 300 ارب روپے معاف کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اب آپ ہی بتائیں اس قدر نوٹس لینے کے بعد کیا صلاح الدین کے معاملے پر نوٹس لینے کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے؟ ویسے ایک نوٹس انہیں اس بات پر بھی لینا چاہئے کہ انہوں نے اب تک کتنے نوٹس لئے اور ان تمام نوٹسوں کا کیا ہوا؟ 

میں تو اس لئے وزیراعظم کو ناحق زحمت دینے کے حق میں نہیں کیونکہ معروف ماہر طبیعات البرٹ آئن اسٹائن نے کہا تھا، ایک ہی تجربہ بار بار اس امید پر دہرانا پاگل پن ہے کہ اس بار نتائج مختلف آئیں گے۔ میں اپنا نام پاگلوں کی فہرست میں نہیں لکھوانا چاہتا، اگر آپ کا ذہنی توازن درست نہیں تو کوشش کر کے دیکھ لیں۔

مزید خبریں :