08 ستمبر ، 2019
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل حملے کو جواز بنا کر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی خفیہ ملاقات منسوخ کر دی۔
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے 9 دور ہوئے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اچانک مذاکرات منسوخ کرنے کے اعلان نے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ایک نظر ڈالتے ہیں کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں کب کیا ہوا۔
امریکا اور طالبان کے دوران پہلا براہ راست رابطہ جولائی 2018 میں ہوا جب امریکی حکام نے خفیہ طور پر قطر میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی۔
پانچ ستمبر 2018 کو زلمے خلیل زاد کو امریکی محکمہ خارجہ میں صدر ٹرمپ کے خصوصی مشیر برائے افغانستان کے طور پر شامل کیا گیا جس کا مقصد جنگ کے خاتمے کے لیے افغان دھڑوں کے درمیان امن عمل میں سہولت فراہم کرنا تھا۔
12 اکتوبر 2018 کو زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد اور طالبان کی ملاقات قطر میں ہوئی۔
دسمبر 2018 میں طالبان نے اعلان کیا کہ وہ امریکی حکام کے ساتھ قطر میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔
25 فروری 2019 کو طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہوا جس میں اہم طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر بھی موجود تھے۔
مذاکرات کے بعد زلمے خلیل زاد نے اعلان کیا کہ مذاکرات کا یہ مرحلہ ماضی کی نسبت زیادہ تعمیری رہا اور فریقین نے امن معاہدے کا مسودہ تیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
مجوزہ معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ امریکی اور بین الاقوامی فوجیں افغانستان سے چلی جائیں گی جبکہ طالبان دیگر جنگجو گروپوں کو افغانستان سے آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ان مذاکرات میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تاہم افغان صدر اشرف غنی کو بات چیت سے دور رکھا گیا۔
12 اگست 2019 تک امریکا اور طالبان کے درمیان کے مذاکرات 8 دور مکمل ہو چکے تھے۔
رواں ماہ زلمے خلیل زاد نے اعلان کیا کہ امن معاہدے کا مسودہ طے پا گیا ہے جس کی صدر ٹرمپ سے حتمی منظوری کا انتظار ہے تاہم آج صدر ٹرمپ نے کابل میں حملے کو جواز بنا کر طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔