09 ستمبر ، 2019
حضرت سلیمان علیہ السّلام، اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی اور حضرت داؤد علیہ السّلام کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ والد کے انتقال کے بعد کم عُمری ہی میں تخت نشین ہو گئے۔ آپؑ کا سلسلۂ نسب حضرت ابراہیم ؑ سے جا ملتا ہے۔ حافظ ابنِ کثیر ؒ نے آپؑ کا نسب نامہ یوں تحریر کیا ہے: سلیمانؑ بن دائودؑ بن ایشا بن عامر بن سلمون بن نخشون بن عمینااداب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودا بن یعقوبؑ بن اسحاقؑ بن ابراہیمؑ۔ آپؑ کی والدہ سے متعلق بہت کم معلومات دست یاب ہیں اور جو ہیں، وہ بھی مستند نہیں۔ ابنِ ماجہ میں ایک حدیث ہے ’’رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ سلیمانؑ بن داؤدؑ کی والدہ نے ایک دفعہ نصیحت فرمائی’’بیٹا! رات بھر سوتے ہی نہ رہا کرو، اِس لیے کہ رات کے اکثر حصّے کو نیند میں گزارنا، انسان کو قیامت کے دن اعمالِ خیر سے محتاج بنا دیتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو بہت سے معجزے عطا فرمائے، جن میں سے چند یہ ہیں(1)ایسی عظیم بادشاہت، جو اُن سے پہلے کسی کو نصیب ہوئی اور نہ اُن کے بعد کسی کو میّسر آئے گی۔(2)انسانوں کے علاوہ جِنوں اور شیاطین کو اُن کے تابع کردیا۔(3)ہر طرح کے جانوروں کو نہ صرف آپؑ کا فرماں بردار کیا، بلکہ اُن کی بولیاں سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت بھی عطا فرمائی۔(4)ہوا کو مسخر کر دیا کہ آپؑ ایک ماہ کی مسافت صبح و شام میں طے کر لیا کرتے تھے۔(5)اُن کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا۔
قرآنِ مجید میں تذکرہ
قرآنِ مجید کی سات سورتوں میں سولہ مقامات پر حضرت سلیمان ؑ کا تذکرہ ہے۔ سورۃ البقرہ، سورۃ النساء، سورۂ الانعام اور سورۂ سبا میں ایک، ایک بار، سورۂ ص میں دو جگہ، سورۃ الانبیاء میں تین بار جب کہ سورۂ نمل میں سات مقامات پر آپؑ کا ذکر ہوا ہے۔
کم سِن سلیمان ؑ کا حکیمانہ فیصلہ
حضرت سلیمان ؑ کو اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت، فہم و فراست، فطانت و ذہانت اور بے پناہ قوّتِ فیصلہ سے نوازا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت داؤد ؑکے دربار میں دو افراد ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے۔ اُن میں ایک بکری والا اور دوسرا کسان تھا۔ کسان نے دعویٰ کیا کہ’’ اس شخص کی بکریوں نے میرے کھیت میں گھس کر اُسے تباہ و برباد کر ڈالا۔‘‘ حضرت دائود ؑ نے اپنے علم و تجربے کے پیشِ نظر فیصلہ دیا کہ کھیتی کا نقصان بکریوں کے ریوڑ کی قیمت کے برابر ہے، لہٰذا، بکریوں کا پورا ریوڑ بہ طورِ تاوان مدعی کو دے دیا جائے۔ فریقین عدالت سے باہر نکلے، تو دروازے پر نوعُمر حضرت سلیمان ؑسے ملاقات ہوگئی۔ اُنہوں نے مقدمے کے بارے میں دریافت کیا اور فیصلہ سُن کر دونوں کو لے کر والدِ محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور گزارش کی’’ اگر اجازت ہو، تو اس فیصلے سے متعلق اپنی رائے پیش کروں۔‘‘اجازت ملنے پر حضرت سلیمان ؑ بولے’’ آپؑ بکریاں تو کھیت والے کو دے دیں تاکہ وہ اُن سے فائدہ اٹھاتا رہے اور کھیت کی زمین بکریوں والے کے سپرد کر دیں کہ وہ اُس میں کاشت کر کے کھیت کو اُس حالت میں لے آئے، جیسا بکریوں کے چرنے سے پہلے تھا۔ پھر کھیت، واپس کسان کو دے دیں اور بکریاں، بکری والے کو۔‘‘ حضرت داؤد ؑ کو یہ فیصلہ بہت پسند آیا ۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے’’اور داؤدؑ اور سلیمانؑ کو یاد کیجیے، جب کہ وہ کھیت کے معاملے میں فیصلہ کر رہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو چَر گئیں (روندگئی) تھیں اور ہم اُن کے فیصلے میں موجود تھے اور ہم نے اُس کا صحیح فیصلہ سلیمانؑ کو سمجھا دیا‘‘(سورۃ الانبیاء78,79) )۔
حضرت سلیمان ؑ کی دُعا
حضرت سلیمان ؑ نے دُعا مانگی’’اے میرے پروردگار! میری مغفرت فرما اور مجھے ایسی بادشاہت عطا کر، جو میرے بعد کسی کو بھی میّسر نہ ہو ۔ بے شک تو بڑا عطا فرمانے والا ہے ‘‘(سورۂ ص 35)۔ حضرت سلیمان ؑ کی یہ دُعا اللہ کے دِین کے غلبے ہی کے لیے تھی، چناں چہ اللہ عزّوجل نے دُعا قبول فرمائی اور اُنھیں عظیم الشّان حکومت عطا فرمائی۔ آپ ہفت اقلیم کے بادشاہ تھے۔ دنیا کی ہر شئے آپؑ کی مطیع اور فرماں بردار تھی۔ ہوا کو حکم دیتے، تو وہ مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر دیتی۔ چرند، پرند ہر حکم کی تابع داری کے لیے حاضر ہوتے۔ سرکش جنّات ہر وقت ہاتھ باندھے احکامات کی بجا آوری کے لیے تیار رہتے اور شیاطین زنجیروں میں جکڑے رہتے۔ سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہے’’اور ہم نے تیز ہوا سلیمان ؑکے تابع کر دی، جو اُن کے حکم سے اُس مُلک میں چلتی تھی، جس میں ہم نے برکت دی تھی(یعنی مُلکِ شام) اور ہم ہر چیز سے باخبر ہیں‘‘(آیت 81)۔حضرت حسن بصری ؒفرماتے ہیں کہ’’ ہوا کے مسخر کرنے کا واقعہ حضرت سلیمان ؑکے ساتھ اُس وقت پیش آیا، جب آپؑ اپنے لشکری گھوڑوں کے معائنے میں مصروف تھے۔ اس اثناء میں آپؑ کی عصر کی نماز فوت ہو گئی، چوں کہ اس غفلت کا سبب گھوڑے بنے تھے، لہٰذا اُنھوں نے اپنے اُن خُوب صُورت اور بیش بہا گھوڑوں کو ذبح کر دیا۔ حضرت سلیمان ؑنے جب اپنی سواری کے جانور قربان کر دیے، تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اُس سے بہتر سواری عطا فرمادی (قرطبی) اور ہوا کو مسخّر کر دیا۔‘‘حضرت سلیمان ؑ کے ان گھوڑوں کا واقعہ قرآنِ کریم کی سورۂ ص کی آیات 31،32،33میں موجود ہے۔ ارشادِ باری ہے ’’اور ہم نے سلیمانؑ کے لیے ہوا کو مسخّر کر دیا کہ صبح کی منزل مہینے بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی ‘‘(سورۂ سبا، 12)۔ یعنی حضرت سلیمان ؑمع اعیانِ سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپؑ کا حکم ہوتا، ہوائیں اُسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہو جاتی اور پھر اسی طرح ایک مہینے کی مسافت دوپہر سے رات تک میں۔ یعنی اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہوتی۔ ابنِ ابی حاطم نے حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ تختِ سلیمانی پر چھے لاکھ کرسیاں رکھی جاتی تھیں، جن پر حضرت سلیمان علیہ السّلام کے ساتھ اہلِ ایمان انسان اور اُن کے پیچھے اہلِ ایمان جنّات بیٹھتے۔ پھر پرندوں کو حکم ہوتا کہ وہ تخت پر سایہ کر لیں تاکہ آفتاب کی تپش سے تکلیف نہ ہو۔ ہوا اُس عظیم الشّان تخت کو اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا، وہاں پہنچا دیتی۔ بعض روایات میں ہے کہ اس ہوائی سفر کے وقت پورے راستے حضرت سلیمان ؑ سَر جُھکائے اللہ کے ذکرو شُکر میں مشغول رہتے‘‘ (ابنِ کثیر)۔
تسخیرِ جنّات و شیاطین
اللہ تعالیٰ نے جنّات اور شیاطین کو بھی حضرت سلیمانؑ کا تابع اور فرماں بردار بنا دیا تھا، جو نوکروں، چاکروں کی طرح آپؑ کا ہر حکم بجا لاتے۔ وہ آپؑ کے لیے سمندر کی تہہ سے قیمتی موتی، ہیرے جواہرات نکال لاتے۔ حضرت سلیمان ؑ کو بڑی اور خُوب صُورت عمارتیں بنانے کا شوق تھا، چناں چہ وہ آپؑ کے حکم پر شان دار عمارتیں بناتے۔ اگر اُن میں سے کوئی سرکشی کرتا، تو حضرت سلیمانؑ اُسے سزا دیتے اور زنجیروں میں جکڑ دیتے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’ہم نے بہت سے شیاطین بھی اُن کے تابع کیے تھے، جو اُن کے فرمان سے غوطے لگاتے تھے۔ اور اس کے سوا بھی بہت سے کام کرتے تھے اور ان کے نگہہ بان ہم ہی تھے‘‘ (سورۃ الانبیاء 82)۔ ان جِنوں میں بھی دو طرح کے جنّات تھے۔ ایک تو اہلِ ایمان تھے، جو اپنے نبیؑ کا ہر حکم مذہبی فریضہ سمجھ کر پورا کرتے، لیکن جو جن کافر تھے، اُنہیں شیاطین کہا گیا۔وہ اپنے کُفر اور سرکشی کے باوجود، حضرت سلیمان ؑکے تابع فرمان تو رہتے، لیکن ان سے نقصان کا بھی اندیشہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کی حفاظت فرمائی۔ سورۂ سبا میں ارشاد ہے’’جو کوئی اُن میں سے ہمارے حکم سے پِھرے گا، اُس کو ہم آگ کا مزا چکھائیں گے‘‘ (آیت 12)۔مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرّر فرما دیا تھا، جس کے ہاتھ میں آگ کا سونٹا ہوتا، جو جن حضرت سلیمان ؑکے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ اُسے سونٹا مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہوجاتا (فتح القدیر)۔
تانبے کا چشمہ
قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے’’اور ہم نے اُن کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا‘‘ (سورۂ سبا 12 )۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت سلیمان ؑکو عطا کیے گئے معجزات میں سے ایک پگھلے ہوئے تانبے کے وہ چشمے ہیں، جن میں جنّات بڑی بڑی دیگیں، لگن، برتن اور بحری جہاز تیار کیا کرتے تھے۔ تورات اور جدید تاریخی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عصیون جابر سے اُن کے تجارتی جہاز بحرِ احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی مُمالک کی طرف جاتے اور دوسری طرف، بحرِ روم کی بندرگاہوں سے اُن کا بیڑہ (جسے بائبل میں’’ ترسی بیڑہ‘‘ کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں اُن کے زمانے کی ایک عظیم الشّان بھٹّی ملی ہے۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں’’ اَدوم‘‘ کے علاقے، عربہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا اور اس بھٹّی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ، جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآنِ مجید کی اس آیت کا مفہوم واضح ہوتا ہے جو سورۂ سبا میں حضرت سلیمان ؑ کے متعلق آئی ہے کہ’’ اور ہم نے اُن کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا‘‘ (تفہیم القرآن، ج 3 ص 176)۔
جانوروں کی بولیاں
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو تمام جانوروں حتیٰ کہ چیونٹیوں تک کی بولیوں کے علم سے نوازا تھا۔’’اے لوگو! ہمیں(یعنی حضرت سلیمانؑ) پرندوں کی بولیاں سِکھائی گئی ہیں‘‘( سورۂ نمل 16 )۔ اسی سورۂ مبارکہ میں ذکر ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان ؑ اپنے لائو لشکر کے ساتھ ایک ایسے میدان سے گزرے، جہاں چیونٹیوں کی بڑی بستی تھی۔ چیونٹیوں کی ملکہ نے جب لشکر کو دیکھا، تو کہا’’ اے چیونٹیو! اپنےگھروں میں گُھس جائو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت سلیمان ؑ اور اُن کا لشکر تمھیں پیروں تلے روند ڈالے اور اُنھیں روندنے کی خبر بھی نہ ہو۔‘‘ یہ بات سُن کرحضرت سلیمان ؑمُسکرا دیے اور اللہ کا شُکر بجا لائے۔کہنے لگے’’ اے میرے ربّ! مجھے توفیق عنایت کر کہ جو احسان تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیے ہیں، اُن کا شُکر کروں اور ایسے نیک کام کروں کہ تو اُن سے خوش ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما‘‘ (سورۂ نمل )۔حضرت سعدی ؒفرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان ؑ کے عہد میں قحط پڑا، تو آپؑ نے لوگوں کو نمازِ استسقاء کے لیے نکلنے کا حکم دیا۔ جب نماز پڑھنے میدان میں گئے، تو وہاں ایک چیونٹی اپنے قدموں پر کھڑی دُعا کر رہی تھی’’ اے اللہ! مَیں بھی تیری مخلوق ہوں۔ ہمارا بھی تیرے فضل کے بغیر چارہ نہیں۔ تو اے اللہ! ان پر بارش برسا دے۔‘‘یہ سُن کر آپؑ واپس آگئے اور لوگوں کو کہا کہ ’’ اب بارش ہوجائے گی۔‘‘
ہُدہُد کی غیرحاضری
ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے پرندوں کی حاضری لی، تو معلوم ہوا کہ ہُدہُد غائب ہے۔ بغیر اطلاع غیرحاضر ہونے پر آپؑ کو غصّہ آگیا اور فرمایا’’ اگر ہُدہُد نے غیرحاضری کی معقول وجہ نہ بتائی، تو اُسے سخت سزا دوں گا اور ذبح کر دوں گا۔‘‘حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ سے سوال کیا گیا کہ’’ تمام پرندوں میں سے ہُدہُد ہی کی تفتیش کی کیا وجہ تھی؟‘‘ آپ ؓنے جواباً فرمایا’’ حضرت سلیمان علیہ السّلام نے کسی ایسے مقام پر قیام فرمایا، جہاں پانی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہُدہُد کو یہ خاصیّت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام کا مقصود یہ تھا کہ ہُدہُد سے معلوم کریں کہ اس میدان میں پانی کتنی گہرائی میں ہے اور کس جگہ زمین کھودنے سے پانی کافی مقدار میں مل سکتا ہے؟ اور ہُدہُد کی نشان دہی کے بعد وہ جنّات کو حکم دیتے کہ زمین کھود کر پانی نکالو۔‘‘ (جاری ہے)