10 ستمبر ، 2019
کراچی: پاکستان کے ڈومیسٹک کرکٹ نظام میں ڈپارٹمنٹل ٹیموں کے خاتمے کے ساتھ ہی کھلاڑیوں کو ملازمت سے فارغ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ڈپارٹمنٹس کے ساتھ منسلک بہت سارے کرکٹرز ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے جب کہ کنٹریکٹ والے ملازمین کو نئے معاہدے نہیں ملیں گے اور مستقل ملازمین کو کام کرنا پڑے گا۔
پہلے مرحلے میں نیشنل بینک نے دس کھلاڑیوں کو ملازمت سے فارغ کیا جارہا ہے جن میں شان مسعود، میر حمزہ اور رومان رئیس نمایاں ہیں۔گذشتہ سال فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے والے کرکٹرز کوبینک انتظامیہ نے معاہدوں کی تجدید نہیں کی ہے۔
شان مسعود پی سی بی کے کنٹریکٹ میں سی کٹیگری میں ہیں۔میر حمزہ ٹیسٹ کرکٹر اور رومان رئیس انٹر نیشنل کرکٹر ہیں دونوں کو پی سی بی نے صوبائی ٹیموں کے ساتھ کنٹریکٹ دیئے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ڈومیسٹک اسٹرکچر تبدیل کر کے 16 ریجنز کو 6 ایسوسی ایشنز میں ضم کر دیا ہے۔ نئے نظام کے تحت قائداعظم ٹرافی کا پہلا مرحلہ 14 ستمبر سے 8 اکتوبر اور دوسرا مرحلہ 28 اکتوبر سے 13 دسمبر تک جاری رہے گا۔
قومی انڈر 19 کرکٹ ٹورنامنٹ یکم اکتوبر سے 12 نومبر تک جاری رہے گا۔کے الیکٹرک نے بھی اپنی کرکٹ ٹیم کے کئی کھلاڑیوں کو ملازمت سے سبکدوش کیا ہے ۔نیشنل بینک نے گذشتہ سال قائد اعظم ٹرافی اور کے الیکٹرک نے گریڈ ٹو میں شرکت کی تھی۔گذشتہ دو سال میں یوبی ایل اور حبیب بینک نے اپنی ٹیموں کو مکمل طور پر بند کردیا ہے۔ ڈپارٹمنٹس کے بعض کھلاڑیوں کوپی سی بی نے صوبائی ٹیموں کے کنٹریکٹ دیئے ہیں۔
پی سی بی کے نئے آئین میں سولہ ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشنز کو ختم کرکے چھ ایسوسی ایشنز کو رکھا گیا ہے اور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز کی جگہ ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشنز نے لے لی ہے۔
پی سی بی ڈومیسٹک سیزن 2019-20 پر ایک ارب روپے سے زائد خرچ کرے گا اور پورے سیزن میں ایک کھلاڑی کو سالانہ 20 لاکھ روپے کی آمدن ہو گی جب کہ ڈومیسٹک سنٹرل کنٹریکٹ یافتہ کھلاڑی سالانہ 6 لاکھ روپے تنخواہ وصول کرے گا۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ نے قائداعظم ٹرافی کی انعامی رقم میں 233 فیصد، پاکستان کپ ون ڈے ٹورنامنٹ کی انعافی رقم میں 150 فیصد اور ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس کی انعامی رقم میں 100 فیصد اضافہ کیا ہے۔
ذمے دار ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے سیٹ اپ میں ڈپارٹمنٹل ٹیموں کا کردار مکمل ختم ہوگیا ہے۔وزیراعظم ہائوس نے ڈپارٹمنٹ کو لکھا ہے کہ وہ صوبائی ٹیموں کو سپورٹ کریں۔نئے نظام کے بعد ڈپارٹمنٹ کی ٹیمیں اپنے کھلاڑیوں کے معاہدوں کی تجدید نہیں کررہی۔جو کھلاڑی مستقل ملازم ہیں انہیں یا تو کام کرنا پڑے گا یا گھر جانا ہوگا۔
ڈپارٹمنٹس کی ٹیموں سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے ہر ڈپارٹمنٹ ماضی میں جتنا پیسہ اپنی ٹیموں کو چلانے پر لگاتے تھے مستقبل میں انہیں یہ رقم صوبائی ایسوسی ایشن کو سپورٹ کرنے پر خرچ کرنا ہوگا۔
وزیراعظم ہائوس نے جن ڈپارٹمنٹس کو خطوط لکھے ہیں ان میں سوئی سدرن، سوئی ناردرن،واپڈا،پی آئی اے، ریلویز ، نیشنل بینک،اسٹیٹ بینک نمایاں ہیں۔ایک ادارے کے اسپورٹس سربراہ کا کہنا ہے جب ٹیمیں میچ ہی نہیں کھیلیں گی تو کھلاڑیوں کو ملازمت دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ابھی چند ڈپارٹمنٹ نے کھلاڑیوں کو فارغ کیا ہے یہ سلسلہ مزید تیز ہوجائے گا۔جس کے بعد کھلاڑیوں کو روزگارکے حصول میں مشکل پیش آئے گی۔ پاکستان میں تقریبا 35 زائد ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں ہیں جو گریڈ ون اور گریڈ ٹو کھیلتی تھیں۔
پی سی بی چیئرمین حسان مانی کا دعوی ہے کہ اب فٹ اور کوالٹی کھلاڑی سامنے آئیں گے۔ سسٹم شفاف ہوگا جس میں میرٹ پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اب کوئی نہیں کہے گا کہ باصلاحیت کرکٹر نظر انداز ہوگیا ہے۔ اس سسٹم کو پہلے سال پی سی بی ایک ارب روپے کی خطیر رقم سے فنانس کرے گا، سسٹم کو پرفیشنلز چلائیں گے۔پی سی بی کو آئین میں ترامیم کا نوٹیفکیشن 19 اگست کو موصول ہوا تھا۔ نئے اسٹرکچر کے مطابق 16 ریجنز کو 6 ایسوسی ایشنز میں ضم کردیا گیا ہے۔
پہلے درجے میں 90 سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اسکول اور کلب کرکٹ کا انعقاد کریں گی۔ بعد ازاں ہر سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن اپنی اپنی کرکٹ ٹیمیں تیار کرے گی۔دوسرے درجے میں سٹی کرکٹ ٹیمیں اپنی متعلقہ کرکٹ ایسوسی ایشن کے تحت انٹرا سٹی مقابلوں میں شرکت کریں گی۔
تیسرے درجے میں انٹرا سٹی کرکٹ مقابلوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو متعلقہ کرکٹ ایسوسی ایشن میں شامل کیا جائے گا۔چھ کرکٹ ایسوسی ایشنز کی ٹیمیں پی سی بی کے زیراہتمام ٹورنامنٹس میں شرکت کریں گی۔ہر کرکٹ ایسوسی ایشن 32 کھلاڑیوں کو سالانہ ڈومیسٹک کنٹریکٹ دیا گیا ہے۔
یہ کھلاڑی سیزن میں ایسوسی ایشن کیلئے فرسٹ کلاس، نان فرسٹ کلاس، لسٹ اے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹورنامنٹس میں شرکت کریں گے۔ومیسٹک کنٹریکٹ رکھنے والے ہر کھلاڑی کو ماہانہ 50 ہزار روپے معاوضہ ملے گا۔ ایک سیزن میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والا ایک کھلاڑی میچ فیس، الاؤنسز اور انعامی رقوم کی مد میں 20 سے 25 لاکھ روپے معاوضہ وصول کرے گا۔