13 ستمبر ، 2019
افغان طالبان کا کہنا ہے اگر امریکا چاہتا ہے کہ ان کے فوجیوں پر حملے نہ ہوں تو وہ ہم سے معاہدہ کر لے۔
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے گزشتہ برس اکتوبر میں مذاکرات شروع ہوئے تھے اور رواں ماہ تک دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے 9 دور ہوئے۔
تاہم چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کابل میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کو وجہ بنا کر طالبان سے کئی ماہ سے چلنے والے مذاکرات ختم کر دیئے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ طالبان لوگوں کو قتل کر کے اپنے آپ کو معاہدے کی بہتر پوزیشن میں لانا چاہتے ہیں، جہاں تک میرا تعلق ہے تو طالبان کے ساتھ معاہدہ ختم ہو چکا ہے۔
طالبان نے امریکی صدر کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے کی منسوخی سے امریکا کو ہی زیادہ نقصان ہو گا۔
دوحا میں طالبان دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے لیے بہت حیران کن تھا کیونکہ امریکا کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ معاہدہ ہو چکا تھا۔
قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے 9 دور سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے بھی کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہد تقریباً طے پا چکا ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں جن چار نکات پر توجہ مرکوز کی گئی ان میں پہلی چیز یہ تھی کہ طالبان غیر ملکی جنگجوؤں کو دوسرے ممالک پر حملے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، دوسرا یہ کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کا مکمل انخلا، تیسرا افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات اور چوتھا نکتہ مکمل سیز فائر تھا۔
تاہم سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں فائر بندی کبھی بھی مذاکرات کا حصہ نہیں رہے تاہم افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر بات کی گئی لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ جب افغانستان سے غیر ملکی فوجیں مکمل طور پر نکل جائیں۔
طالبان ترجمان نے کہا کہ دوسرے افغانوں کی طرح ہم بھی امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، اگر ان کے ساتھ فائر بندی کا معاہدہ ہو جاتا ہے تو ان پر حملے نہیں ہوں گے لیکن یہ افغانستان کے معاملے کا ایک دوسرا ایشو ہے، ہم پہلے افغانستان سے غیر ملکی فورسز کا انخلا چاہتے ہیں۔
سہیل شاہین نے بتایا کہ معاہدے کی صورت میں طالبان کی جانب سے امریکا کو افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے لیے محفوظ راستہ دینے کا نکتہ بھی شامل تھا لیکن یہ چیز معاہدہ طے پا جانے کی صورت میں تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم امریکا کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں تو یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان پر حملے نہ کریں اور انہیں محفوظ راستہ فراہم کریں، اور اگر وہ معاہدے کے بغیر جاتے ہیں تو یہ ہماری صوابدید ہے کہ ہم ان پر حملہ کرتے ہیں یا انہیں جانے دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر امریکا چاہتا ہے کہ ہم ان پر حملے نہ کریں تو وہ ہمار ےساتھ معاہدہ کر لے، ہم ان پر حملے نہیں کریں گے لیکن اگر وہ اپنی بربریت جاری رکھتا ہے، رات کے آپریشن جاری رکھتا ہے تو ہم بھی وہی انداز اپنائیں گے جو گزشتہ 18 سال سے جاری ہے۔