14 ستمبر ، 2019
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر عالمی برادری سے بھارت پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کردیا۔
روسی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کوئی عقلمند شخص ایٹمی جنگ کی بات نہیں کرسکتا، کشمیر کی تباہ کن صورتحال کے جنوب ایشیا سے بہت دور تک اثرات ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیوبا بحران کےبعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل ملک آمنے سامنے ہوں، پاک بھارت کشیدگی بڑھی تو ناقابل تصور نتائج نکلیں گے، اس سے بچنے کے لیے عالمی برداری کردار ادا کرے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت شدت پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے، اقوام متحدہ اسی طرح کے بحرانوں کے حل کے لیے بنائی گئی تھی، صرف بیانات سے کام نہیں چلے گا، یہ عمل کرنے کا وقت ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ بھارت پر شدت پسندوں کا قبضہ ہے، عالمی برادری بھارت پر تجارتی پابندی عائد کرے، کچھ عالمی طاقتیں تجارتی فوائد کو انسانی زندگیوں سے زیادہ اہم سمجھتی ہیں۔
کشمیر کی موجودہ صورتحال کا پس منظر
بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔
بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔
بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔
کشمیر میں اب کیا ہورہا ہے؟
بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔
بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
ریاستی جبر و تشدد کے نتیجے میں متعدد کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جب کہ کشمیر میں حریت قیادت سمیت بھارت کے حامی رہنما محموبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی نظر بند ہیں۔