17 ستمبر ، 2019
امریکا میں اس کا شمار 100 بااثر ترین شخصیات میں ہوتا ہے، ورلڈ بینک میں وہ 10 رُکنی ٹیکنیکل ایکسپرٹس گروپ کا حصہ ہے اور اقوام متحدہ میں وہ چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر ہیں لیکن پاکستان میں وہ ایک اشتہاری مجرم ہے۔
ان کا قومی شناختی کارڈ بلاک کر دیا گیا ہے۔ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں درج ہے چونکہ حکومت ان کی مخالف ہوگئی ہے لہٰذا گزشتہ 5 برسوں سے انہیں جھوٹے الزامات پر مقدمات اور تحقیقات کا سامنا ہے۔
طارق ملک اس کی بہترین مثال ہے جب کوئی نظروں سے گر جاتا ہے تو ملکی نظام کا اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔
2008ء سے 2014ء تک وہ نادرا میں چیئرمین سمیت اہم عہدوں پر فائز رہے۔ دسمبر 2013ء میں اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے برطرف کردیا۔
جب الیکشن کمیشن کے حکم پر ووٹرز کے انگوٹھوں کے نشانات کی توثیق کا عمل شروع ہوا لیکن جب انہوں نے بھدّے انداز میں اپنی برطرفی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تو عدالت نے اپنے سخت فیصلے میں اسے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے بحال کردیا۔
تب سے ان کے خاندان کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ طارق ملک نے جنوری 2014ء میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دے رکھا تھا۔
اس وقت عمران خان نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے طارق ملک کے عزم و حوصلے کی تعریف کی تھی۔ سرکاری ملازمین کو ہراساں کرنے پر ن لیگ کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
دریں اثناء طارق ملک اس دوران امریکا چلے گئے۔ ایک آئی ٹی فرم میں کام شروع کردیا جہاں اس سے قبل بھی وہ خدمات انجام دے چکے تھے لیکن ملک چھوڑ جانے سے ان کی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوئی۔
حکومت نے انہیں نشان عبرت بنانے کا منصوبہ بنایا، ایف آئی اے کے ساتھ درج ایف آئی آر میں ان پر اپنی کینیڈین شہریت چھپانے کا الزام عائد کیا، جب انہوں نے 2008ء میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے قومی شناختی کارڈ (این آئی سی او پی) کے لئے درخواست دی۔ حد تو یہ ہے کہ انہیں اپنے خلاف ایف آئی آر کے اندراج سے آگاہ بھی نہیں کیا گیا۔
چار سال بعد 2018ء میں اس وقت ان کے علم میں آیا جب مدت پوری ہو جانے پر انہوں نے این آئی سی او پی کے ازسرنو اجراء کے لئے درخواست دی۔
نادرا جس کے وہ خود سربراہ رہے، اس نے بتایا کہ ان کا این آئی سی او پی تو 2014ء سے بلاک ہے جب انہیں اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
طارق ملک نے جب اس کی وجہ دریافت کی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہے چونکہ وہ اپنے دفاع کے لئے عدالت میں پیش نہیں ہوئے لہٰذا انہیں اشتہاری قرار دیا گیا۔
انہیں بتایا گیا کہ ریاست ان کے خلاف شکایت کنندہ ہے۔ حالانکہ طارق ملک کو نادرا میں ملازمت کے لئے آئی ایس آئی اور آئی بی نے کلیئرنس دی تھی۔ عدالت میں حاضری کے لئے واپسی بے وقوفی ہوتی۔
تاریخ بھی اس کی گواہ ہے۔ اس دوران انہوں نے حکومت کے تبدیل ہونے کا انتظار کیا۔ 2018ء میں تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی۔ طارق ملک نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا، جہاں ان کے والد بھی بیمار تھے۔
وہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے گئے اور اپنے کینیڈین پاسپورٹ پر ویزے کے لئے درخواست دی کیونکہ این آئی سی او پی بلاک ہونے کی وجہ سے پاکستانی پاسپورٹ پر سفر نہیں کر سکتے تھے۔
تب ان پر نئی حقیقیت آشکار ہوئی کہ سفارت خانے نے اشتہاری قرار دیئے جانے کی وجہ سے ویزا جاری کرنے سے معذرت کر لی۔
موجودہ حکومت کے کرتا دھرتا جو ان کی دیانت کے قائل تھے انہوں نے طارق ملک کو نام ڈالنے کا حکم دیا۔ جب انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان میں اپنے خلاف درج مقدمے میں اپنی صفائی دینا چاہتے ہیں، تب بھی نفی میں جواب دیا گیا۔
تب انہوں نے وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو خطوط لکھے اور اپنی درخواست دُہرائی۔ اس پر بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ تب انہوں نے اقوام متحدہ کے ڈپلومیٹک پاسپورٹ جس کیلئے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی، سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔
تاہم پاکستان واپس آنے سے قبل انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرلی۔ واپس آمد پر انہوں نے خود کو عدالت میں پیش کر دیا۔ جہاں ان کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
دریں اثناء ان کا کیس ڈسٹرکٹ کورٹ میں چلتا رہا جہاں جج نے انہیں کلیئر کردیا لیکن معاملہ بے نتیجہ ہی رہا تاہم گزشتہ جمعہ کو فیصلہ ان کے حق میں ہوا۔
ایف آئی اے نے اعتراف کیا کہ طارق ملک نے کوئی قابل سزا جرم نہیں کیا اور ڈی جی پاسپورٹ نے بھی اس کی تصدیق کی۔
5 سال تک مصائب جھیلنے کے بعد طارق ملک اپنے باعزت بری ہونے پر خوش ہیں لیکن تعجب ہے جھوٹے الزامات عائد کرنے والوں کو سزا کیوں نہیں ہوتی؟