کراچی کا حل آرٹیکل 149 میں کیوں نہیں؟

— اے ایف پی فوٹو

وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان آئین کے آرٹیکل 149 کی شق چار کے تحت کراچی کے لئے اختیارات اور ہدایات جاری کرنے کا تنازع جاری ہے۔

اس سے شاید عوام کو تو کوئی فائدہ نظر نہیں آیا لیکن سیاسی بیانات اور شعلہ بیانی کو جگہ مل گئی ۔ سیاسی رہنماؤں نے اس معاملے پر بیانات داغ کر کہیں تقسیم اور کہیں محرومی کی آوازیں بلند کرنا شروع دیں۔ لیکن عوام شاید اب کافی حد تک باشعور ہوچکے اور وہ کراچی کے سنگین مسائل کو بڑی باریک بینی سے دیکھتے ہیں اور اس پر بات کرتے ہوئے کسی سے امید نہیں لگارہے بلکہ انتظار میں ہیں کہ کوئی مضبوط حل نکالنے کی بات ہونی چاہیے ۔

عوام سب سے زیادہ پریشان صوبے میں عوامی مسائل دور کرنے والے سرکاری اداروں کے کرپٹ عناصر سے ہیں جہاں کرپشن اپنی جڑیں انتہائی مضبوط کر چکی ہے اور رشوت خوری سرکاری ملازم کا حق اور کام نہ کرنا فرض بن گیا ہے ۔

کراچی میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں متنخب حکومتوں کی ناکامی میں سرکاری افسران کا بھی اہم کردار نظر آتا ہے۔ حکومتیں سیاسی چپقلش کا شکار ہیں لیکن انتظامی اداروں کو چلانے والے سرکاری ملازم اور افسران کیوں بے بس یا ملوث نظر آتے ہیں ؟ ماضی میں سیاسی تنازعات ہوا کرتے تھے لیکن عوامی فلاح و بہبود کے کام روکے نہیں جاتے تھے کیونکہ اداروں کا انتظامی کنٹرول بیوروکریٹس ، صوبائی اور ضلعی افسران چلایا کرتے تھے اور ان میں ایک مخصوص تناسب سے ایماندار افسر بھی موجود ہوتے تھے ۔لیکن گزشتہ سالوں میں پرکشش عہدوں پر بولیاں لگنے لگیں اور نظام میں لگی کرپشن کی دیمک اسے بری طرح چاٹ گئی۔

سندھ میں سیاسی چپقلش نے جہاں بلدیاتی نظام ، صوبائی حکومت اور شہری نمائندوں کے درمیان خلیج پیدا کی وہاں وفاق کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی نے بھی کراچی جیسے میٹروپولیٹن سٹی کو سہولیات سے خالی شہر بنادیا ۔

حکومت سندھ، منتخب شہری قیادت اور وفاقی حکومت کراچی کو پانی کی فراہمی ، صفائی ، ٹرانسپورٹ سمیت دیگربنیادی سہولیات کی فراہمی میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ فیصلے اور ہدایات جاری کرچکے لیکن سندھ کے سرکاری اداروں میں بیٹھے افسران کام کرنے کی بجائے سیاسی قیادت کو متبادل راستے تجویز کرتے نظر آتے ہیں یا پھر سرسری کارروائی کرکے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

زیادہ دور نہ جائیں اگر گزشتہ دس سال میں ریٹائر ہونے والے سینئر ارب پتی افسران کےا ثاثوں کی تحقیقات کرالی جائیں تو حقیقت سامنے آجائے گی۔ ان میں حکومت سندھ کے اہم اداروں، انتظامی اور بلدیاتی محکموں کے گریڈ 18 سے 21 تک کے افسران کے اثاثوں کا فارنزک آڈٹ کرا لیا جائے اور قریبی عزیزوں کے معیار زندگی کو جانچ لیا جائے تو ہوش ربا انکشافات سامنے آئیں گے۔ کیسے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو ملک کے اندراور بیرون ملک بڑے کاروبار، صنعتیں، پراپرٹیز اور پارٹنر شپ میسر ہیں۔

کئی سرکاری افسران ملک سے فرار ہوچکے اور کئی ڈیل کرکے دوبارہ عہدوں پر فائز ہیں۔ نیب اور اینٹی کرپشن کی آنکھوں کی پٹی بھی نہ جانے کب اترے گی۔ کرپشن کے بادشاہوں نے تو بہترین حکمت عملی کرکے سندھ میں بڑے اسکینڈل والے کیسز صوبائی اینٹی کرپشن کے حوالے کرادئیے اور ان کا ریکارڈ بھی محکمہ اینٹی کرپشن میں ضبط کرادیا تاکہ ایف آئی اے، نیب یا کوئی ادارہ یہ حاصل کرکے تحقیقات نہ کر سکے اور نہ کوئی وفادار ہاتھ آسکے۔

کرپشن ہی وہ بیماری ہے جس نے کراچی کو کھنڈر بننے کی راہ پر ڈال دیا ہے ۔کون پوچھے گا کہ ہزاروں کی تعداد میں میونسپل کا عملہ کہاں ہے ، سڑکوں پر صفائی کیوں نہیں ہورہی، سیوریج کا پانی صاف کرنے والا عملہ اور مشینری کہاں ہے ، نالے کیوں صاف نہیں ہوئے، سڑکیں کیوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، پینے کا پانی کیوں فراہم نہیں ہورہا ، ٹینکر مافیا کیوں مضبوط ہورہی ہے۔ محکمہ بلدیات، واٹر سیوریج بورڈ ، کے ایم سی ، ضلعی میونسپل کارپوریشن، سالڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ کو اربوں روپے جاری ہورہے ہیں کہاں جارہے ہیں ۔صوبائی محکمہ خزانہ پر کون لوگ منصوبہ بندی کے تحت تعینات ہیں اور عوام کے ٹیکس سے حاصل اس پیسے کو ان کرپٹ لوگوں کو جاری کرکے ہر چیز صیغہ راز میں کیوں رکھتے ہیں ۔ایسی تفصیلات تو عوامی معلومات ذرائع ابلاغ کے لئے جاری کردینی چاہیے تاکہ عوام اپنے پیسوں کا حساب لے سکیں۔ ایک ایک یونین کونسل، تعلقہ، ضلع اورشہر کا مکمل بجٹ جو ہر تین ماہ میں پیسے جاری کئے جاتے ہیں وہ سامنے آنا چاہیں تاکہ اس کی جانچ عام آدمی بھی اپنے طور پر کرسکے ۔

وفاقی حکومت آرٹیکل 149 کی شق چار کو لاگو کرکے بھی شاید کچھ نہ کرپائے کیونکہ آپ کو استعمال اسی انتظامی ڈھانچے کو کرنا ہوگا جہاں کرپشن کا ناسور نظام کو کھا گیا ہے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔