18 ستمبر ، 2019
بھائی صاحب، پریس کلب جانا ہے؟ میں نے ادھر ادھر دیکھا تو سامنے ایک رکشہ والا مجھ سے مخاطب تھا، ان کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون رکشہ کا انتظار کر رہا ہے اور کون گاڑی کا، ہاں یار، کمال کے آدمی ہو مجھے بھی پہچان لیا اور یہ بھی جان لیا کہ جانا کہاں ہے۔ چلو میں نے رکشہ میں بیٹھتے ہوئے کہا۔ اس مختصر سفر میں اس نے اپنا سارا دکھ درد بیان کر دیا۔ جب پریس کلب پہنچے تو میں نے اُس سے کہا کہ ذرا دس منٹ رکنا واپس بھی جانا ہے۔ ہاں، کیوں نہیں۔ یہ کہتے ہوئے ا س نے اپنا رکشہ سائیڈ پر کھڑا کر دیا۔
یہ کہانی صرف انعام الدین رکشہ والے کی نہیں، بلکہ اس ملک کے ’جمہور‘ کی داستان ہے۔ رکشے، بس، پٹھان کے ہوٹل پر چائے پیتے وقت یا پان والے کے پاس کچھ دیر کھڑے رہنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام آدمی کا درد کیا ہوتا ہے۔ کمال سیاسی شعور ہوتا ہے ان میں، اصل تجزیہ یہی کرتے ہیں حالات کا۔
سفر شروع ہوا تو اس نے خیریت دریافت کی، صاحب یہاں کیسے آنا ہوا، میں نے کہا اہلیہ کا آپریشن ہوا ہے۔ کچھ دن آنا جانا لگا رہے گا، اللہ بہتر کرے گا۔ یہ کہتے ہی اس نے اپنی کہانی بیان کرنا شروع کر دی۔ صاحب یہ اچھا اسپتال ہے مگر میری بیوی کو تو کینسر ہے جس کا علاج یہاں نہیں ہے۔ جس اسپتال میں لے کر گیا وہاں ڈاکٹروں نے آپریشن کے سات لاکھ مانگے، میں کہاں سے لاتا، یہ بتاتے ہوئے بھی ڈاکٹروں نے تین سال لگا دیئے۔ پہلے دوائیوں کے ذریعہ علاج کیا مگر کچھ نہ بنا، اب تو میرے پاس پیسے ختم ہو چکے ہیں۔
تصور کریں کہ اگر SIUT نا ہوتا یا ڈاکٹر ادیب جیسے لوگ نہ ہوتے تو یہاں کے ہزاروں مریضوں کی داستانیں بھی انعام کے درد سے کم نہ ہوتیں۔ میں نے کہا، تم مجھ سے کسی دن آ کر ملنا کوشش کرتا ہوں، ابھی میں یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک میں نے چیخ کر کہا، او بھائی دیکھ کر اور اس نے دیکھے بغیر ہی رکشہ دائیں جانب موڑ لیا۔ تم نے دیکھے بغیر ہی موڑ لیا، روز گزرتے ہیں اب تو ان کو میری اور مجھے ان کی پہچان ہو گئی ہے۔ ویسے آپ کی گاڑی کہاں ہے؟ اس نے تقریباً مجھے حیران کر دیا یہ سوال کر کے۔ او، بھائی، کہیں تم ’سادہ‘ والے تو نہیں ہو۔
خاصی نظر ہے تمہاری، نہیں نہیں، صاحب پریس کلب کے سامنے اکثر ہوتا ہوں، آپ کو آتے جاتے دیکھتا ہوں، ناراض نہ ہونا، ارے نہیں، ہاں، گاڑی کلب میں چھوڑ دیتا ہوں، یہاں اسپتال کے ارد گرد پارکنگ نہیں ملتی، ہاں یہ تو ہے حالانکہ آگے اسپتال ہیں، یہاں کی سڑکیں بھی اچھی ہونی چاہئیں تاکہ مریض کو فوراً لایا جا سکے۔ مجھے اس کی بات سن کر خوشی ہوئی۔ ذرا سوچیں کہ اگر ایک رکشہ چلانے والا یہ سوچ سکتا ہے تو حکومت کرنے والے یہ کر کیوں نہیں سکتے۔
اب میں نے کلب سے کچھ کھانے کی چیزیں لے کر اس سے کہا کہ بس مجھے واپس پہنچا دو۔ ابھی اس نے رکشہ اسٹارٹ ہی کیا تھا کہ میں نے کہا تم اپنی بیوی کا اب کیا علاج کر رہے ہو۔ کینسر کے ایسے اسپتال ہیں جہاں علاج مفت ہوتا ہے۔ جی، گیا تھا، وہاں بھی مگر انہوں نے کہا کہ مرض بہت پھیل گیا ہے اور عمر بھی پچاس سال سے زیادہ ہے۔ کچھ دوائیں لکھ کر دیں لینے گیا تو 1300کی گولی تھی۔مجھے تو ایسا لگا کہ جیسے کسی نے گولی مار دی ہو۔
صاحب، سنا ہے اب حکومت نے کوئی کارڈ دینا شروع کیا ہے جس سے سات لاکھ تک رقم مل سکتی ہے۔ ہاں میں تمہیں معلوم کر کے بتاؤں گا کیونکہ اب میں اسکا علاج تو کرا نہیں سکتا، ہاں جب کچھ دن اچھے گزر جاتے ہیں تو ایک دو مرتبہ گولی خرید لیتا ہوں، باقی جو قسمت میں لکھا ہے۔ کوئی 35سال ہو گئے رکشہ چلاتے ہوئے جس میں 10سال بیوی کے علاج میں گزر گئے باقی اس پریشانی میں۔ صاحب، غریبوں کے نصیب میں ایسی بیماری کیوں نہیں آتی جس پر خرچہ کم ہو، مجھے محسوس ہوا کہ اس کی آواز بھرائی ہوئی ہے۔ میں نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ہمت سے کام لو۔
اتنے میں رکشہ سندھ اسمبلی کے سامنے سے گزارتے ہوئے اس نے کمال جملہ کہا، ان لوگوں کو دیکھیں ہماری تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں مگر ان کی گاڑیاں ہماری گلیوں میں نہیں آ سکتیں، آپ بتاؤ، سیاست، کہاں جا رہی ہے۔ میں نے کہا جب ووٹ مانگنے آئیں تو یہ سوال ضرور کرنا۔
اس بار ووٹ تبدیلی کو دیا کہ شاید یہ کچھ تبدیل کریں مگر ہمارا بوجھ اور بڑھ گیا ہے۔ اب رکشہ اردو بازار کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ اچانک ٹریفک پولیس والے نے رکنے کا اشارہ کیا اور رکشہ سائیڈ میں کرتے ہوئے کہا، خیر تو ہے میں نے پوچھا، کچھ نہیں سو روپے سے شروع ہیں 20پر مان جاتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی ہوا، یہاں دیکھیں ہزاروں کتابیں سڑکوں پر رکھی ہوئی ہیں، کبھی تو رکشہ گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔اب ہم واپس SIUT پہنچ چکے تھے، میں نے اس کو سو روپے زیادہ دے دیئے بولا نہیں صاحب، رکھ لو آگے بھی یہی پولیس والے مل سکتے ہیں، میں واپس پہنچا تو ادیب صاحب اور انکی ٹیم کو کام کرتے ہوئے صرف یہ سوچتا رہا کہ ہمارے حکمرانوں کو صرف پانچ کام کرنا تھے مگر اس میں وہ ناکام نظر آئے۔
دوسرے دن اہلیہ کو گھر لے جانا تھا، اپنی گاڑی لانا پڑی، ابھی ہم اسپتال سے نکلے ہی تھے کہ ٹوٹی سڑک کی وجہ سے جھٹکا لگا، اس کو شدید تکلیف میں دیکھ کر واپس آنا پڑا۔ ڈاکٹر نے انجکشن لگا کر سلا دیا، ایک دن مزید لگا، انعام رکشہ والے کی بات یاد آ گئی کہ صاحب، اگر ارد گرد کی سڑکیں ٹھیک ہوں تو مریضوں کو لانے اور لے جانے میں دشواری نہ ہو۔