نواز شریف نے جج ویڈیو اسکینڈل میں سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

نواز شریف نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل میں بذریعہ وکیل سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے— فوٹو: فائل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے جج ویڈیو اسکینڈل میں سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل میں بذریعہ وکیل سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

سپریم کورٹ کے جاری کردہ فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کرنے کی آج آخری تاریخ تھی لیکن نواز شریف نے بذریعہ وکیل سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر کرنے کیلئے دو ہفتے کی مہلت طلب کی جس پر رجسٹرار آفس نے مہلت دے دی۔ 

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 23 اگست 2019 کو جج ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کے کردار سے ملک بھر کی عدلیہ کی بدنامی ہوئی، ٹرائل کے دوران جج ملزمان سے ہمدردی رکھنے والوں سے ملتا رہا، جج ارشد ملک نے بلیک میل ہونے کے حوالے سے کسی اعلیٰ اتھارٹی کو نہیں بتایا۔

 جج ارشد ملک نے نہ ہی خود کو ٹرائل سے الگ کیا، جج کے اعتراف سے ہمیں شدید دھچکہ پہنچا اور ججز کے سر شرم سے جھک گئے۔

سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق کیس میں تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی استدعا بھی مسترد کر دی تھی۔

جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ 

اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔

تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔

ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔

جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔

بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔

مزید خبریں :