24 ستمبر ، 2019
ٹیسٹ وکٹ کیپر کامران اکمل نے قائد اعظم ٹرافی کے دوسرے راؤنڈ میں سینٹرل پنجاب کیلئے پہلی اننگز میں چھٹے نمبر پر کھیلتے ہوئے 170 گیندوں پر 12 چوکوں اور 4 چھکوں کی مدد سے 157 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔
اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد میں کھیلے گئے اس میچ میں دائیں ہاتھ کے بیٹسمین کا اسڑائیک ریٹ 92.35 رہا جو اس اعتبار سے اہمیت کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ اور طویل دورانیے کی کرکٹ میں ان دنوں بیٹسمینوں کا سست انداز میں کھیلنا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
ویسے موضوع بحث تو یہ بات بھی ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں قیادت سے وکٹ کیپر سرفراز احمد کو علیحدہ کر دینا چاہیے۔ اس بارے میں ایشین بریڈ مین ظہیر عباس اور شاہد آفریدی بھی بیان دے چکے ہیں جبکہ ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق بھی دبے لفظوں میں سرفراز احمد کی طویل دورانیے کی کرکٹ پر سوال اٹھا چکے ہیں۔
اطلاعات یہی ہیں کہ سرفراز احمد سے ٹیسٹ کرکٹ کی باگ ڈور لینے کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔ اس معاملے میں سرفراز احمد کیلئے ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سے ہٹنے کے بعد ٹیم میں بھی جگہ برقرار رکھنا آسان دکھائی نہیں دے رہا۔
ایسے میں 27 سال کے محمد رضوان جو 2016ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہملٹن میں کیریئر کا واحد ٹیسٹ کھیلے ہیں، انہیں سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز میں اسکواڈ میں جگہ دے کر بہت کچھ بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسری جانب محمد رضوان قائد اعظم ٹرافی میں خیبر پختونخوا کے کپتان کی حیثیت سے ایبٹ آباد میں 176 رنز کی اننگز کھیل چکے ہیں۔
البتہ بڑا سوال یہ ہے کہ کامران اکمل کا مستقبل کیا ہے؟ آئندہ سال 13 جنوری کو 38 ویں سالگرہ کا کیک کاٹنے والے پاکستان کے ریکارڈ ساز وکٹ کیپر کو کیا موقع دیا جا سکتا ہے؟
کم از کم ٹیسٹ کرکٹ میں آج بھی فرسٹ کلاس کرکٹ میں 31 سنچریاں بنانے والے کامران اکمل ٹیم کے مفاد میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ 53 ٹیسٹ میں 184 کیچ اور 22 اسٹمپڈ کرنے والے کامران اکمل 53 ٹیسٹ، 157 ون ڈے اور 58 ٹی ٹوئنٹی میں بطور وکٹ کیپر پاکستان کی جانب سے ریکارڈ 454 شکار کرنے والے وکٹ کیپر ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ کامران اکمل اور ٹیسٹ کرکٹ کے درمیان وقفہ خاصا لمبا ہے، مطلب کامران اکمل پاکستان کیلئے آخری ٹیسٹ اگست 2010ء میں لارڈز پر انگلینڈ کے خلاف کھیلے تھے لیکن ماضی میں انہیں ون ڈے یا مختصر دورانیے کی ٹی 20کرکٹ تک محدود رکھا گیا۔
پھر سرفراز احمد کے بطور کپتان کھیلنے کے نتیجے میں کامران اکمل کو بطور فیلڈر کھلانے کا فیصلہ بھی درست ثابت نہ ہوسکا۔ اب آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب ہوگا کہ وکٹ کیپر کامران اکمل کے بارے میں سوچا جائے، باالخصوص کامران اکمل کی فارم اور فٹنس کو کم از کم ٹیسٹ کرکٹ میں استعمال کرنا پاکستان کرکٹ کے بہترین مفاد میں ہوگا۔
ٹیسٹ کرکٹ میں بطور بیٹسمین کامران اکمل 30.79 کی اوسط سے 2648 رنز 6 سنچریوں کی مدد سے اسکور کر چکے ہیں، پھر وہ ایک مستند بیٹسمین کی ذمہ داری اختتامی نمبروں پر بخوبی نبھانے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔
جہاں تک ان کی 37 سال کی عمر کا سوال ہے تو اگر مصباح الحق 43 سال کی عمر میں آخری ٹیسٹ کھیل سکتے ہیں، تو کامران اکمل تو ابھی عمر کے معاملے میں اس ہندسے سے خاصی دوری پر کھڑے ہیں۔
کامران اکمل نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں ساتویں نمبر پر 46 اننگز میں 31.29 کی اوسط سے 1314 رنز تین سنچریوں اور سات نصف سنچریوں کی مدد سے بنا رکھے ہیں۔ یہ اعداد و شمار یہاں لکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حالیہ عرصے میں ٹیسٹ کرکٹ میں اختتامی نمبروں پر کھیلنے والے کھلاڑیوں نے بہت مایوس کیا ہے۔
جہاں تک کامران اکمل کی بطور وکٹ کیپر مایوسی کی داستان ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، البتہ بطور وکٹ کیپر سرفراز احمد کی حالیہ عرصے میں وکٹ کیپنگ بھی کیچ گرانے اور اسٹمپڈ چھوڑنے کے معاملے میں سب کے سامنے ہے۔
ایسی صورت حال میں مناسب اور بہترین طریقہ کار یہی ہوگا کہ کامران اکمل کی بطور وکٹ کیپر ٹیسٹ کرکٹ میں خدمات سے استفادہ کرکے آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ میں ایک مناسب اور متوازن اسکواڈ کی تشکیل پر توجہ مرکوز کی جائے۔
کامران اکمل پاکستان کے سر فہرست وکٹ کیپرز میں اپنی بلے بازی کی اہلیت اور بطور وکٹ کیپر ریکارڈ شکار کے حوالے سے قابل ذکر ہیں۔
اب دیکھنا ہوگا کہ اس وکٹ کیپر کو ڈسپلن رہنے اور مسلسل نظر انداز کیے جانے کی روش کے آگے ’فل اسٹاپ‘ لگتا ہے یا پھر فرسٹ کلاس کرکٹ میں مسلسل عمدہ کارکردگی کو نظر انداز کرنے کی روایت یوں ہی برقرار رکھی جاتی ہے۔