ثاقب نثار اور حکومت کا ’پی کے ایل آئی‘ پر مشترکہ ظلم

پاکستان کی قوم پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کا جو مشترکہ ظلم ہے وہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (PKLI) کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ 

ایک ایسا اسپتال جس نے پاکستان میں گردوں اور جگر کی بیماریوں کے علاج اور ٹرانسپلانٹ کے لیے دنیا کی بہترین سہولتیں مہیا کرنا تھیں اور جہاں غریبوں کا علاج بشمول ٹرانسپلانٹ (جو انتہائی مہنگا علاج ہے) بالکل مفت اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ہونا تھا، اُسے پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور اس کے بعد موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی اَنا کی بھینٹ چڑھا دیا۔

دی نیوز کے فخر درانی کی خبر کے مطابق جب سے حکومت پنجاب نے اس ادارے کا انتظام سنبھالا ہے، لیور ٹرانسپلانٹ (جگر کی پیوند کاری) کا عمل بند ہو چکا ہے۔ 

مارچ 2019ء سے ایک بھی لیور ٹرانسپلانٹ نہیں ہوا، صرف تین پیوند کاریاں ہوئیں، وہ بھی گزشتہ انتظامیہ کے تحت۔ اس کے علاوہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کا اوّلین ٹارگٹ رواں سال 200کڈنی ٹرانسپلانٹ (گردے کی پیوندکاری) تھا تاہم اب تک اس ہدف کا 25فیصد ہی حاصل ہو سکا ہے اور 50مریض ہی اس عمل سے گزرے، یعنی عملی طور پر جگر کی پیوندکاری کا کام بند ہو چکا جبکہ گردے کی پیوندکاری کا کام کافی متاثر ہوا ہے۔

اسپتال کو فنڈز کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے اور یوں قوم کے اربوں روپے سے شروع کیا گیا ایک شاندار پروجیکٹ صرف اس لیے تباہ کر دیا گیا ہے کیونکہ ثاقب نثار کا بھائی اس کا مخالف تھا اور یہ بھی کہ شہباز شریف کا نام اس اسپتال کے ساتھ جڑا تھا۔

شوکت خانم کو اپنے لیے جائز طور پر ایک اعزاز اور فخر سمجھنے والے عمران خان کی حکومت سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ PKLIکو صرف سیاسی مخالفت کی بنیاد پر تباہ و برباد کر دیں گے۔ 

محترم پروفیسر ڈاکٹر سعید جنہوں نے یہ پروجیکٹ حکومت پنجاب کی مدد سے شروع کیا، تقریباً 25انتہائی ماہر اور کامیاب ڈاکٹرز اور سرجنز کو امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک سے واپس اپنے ملک لانے میں کامیاب ہوئے تاکہ PKLIکے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جا سکے۔

ڈاکٹر سعید سمیت بیرونِ ملک سے آنے والے ڈاکٹرز جو اپنا پُرتعیش طرزِ زندگی اور مراعات چھوڑ کر وطن کی خدمت کا جذبہ لے کر واپس آئے، اُن کے خواب کو ثاقب نثار اور موجودہ حکومت نے چکنا چور کر دیا اور اب ان ماہرین کی بڑی اکثریت پی کے ایل آئی چھوڑ کر جا چکی ہے جبکہ باقی بھی کوچ کا سوچ رہے ہیں۔

خبر کے مطابق 25دسمبر 2017ء کو اپنے قیام کے بعد سے انسٹیٹیوٹ میں مارچ 2019ء تک 303423مریضوں کا علاج ہوا۔ اس کے تحت ہیپاٹائٹس پریوینشن اینڈ ٹریٹمنٹ پروگرام (ایچ پی ٹی پی) کے ذریعہ 279940مریض رجسٹر ہوئے، چار لاکھ افراد کو آگاہی دی گئی۔ 

پنجاب کے 23اضلاع میں ایچ پی ٹی پی کلینکس قائم کئے گئے جہاں 15ماہ میں مجموعی طور پر 914872 مریضوں کی اسکریننگ ہوئی۔ اب ان کلینکس کو بند کر کے پنجاب ہیپاٹائٹس پروگرام میں ضم کر دیا گیا ہے۔

 پی کے ایل آئی کا یہ ہدف تھا کہ نہ صرف 2030ء تک ہیپاٹائٹس بی اور سی کا پاکستان سے خاتمہ کر دیا جائے گا بلکہ پاکستان میں جگر اور گردوں کے امراض بشمول ٹرانسپلانٹ کا ملک کے اندر مکمل انتظام فراہم کیا جائے گا اور سب سے اہم یہ کہ غریب مریضوں کا علاج مفت کیا جائے گا۔ 

یہاں تو امیر جگر کے علاج کے لیے 60، 70 ستر لاکھ خرچ کر کے بھارت یا چین سے علاج کرواتے رہے جبکہ غریب کے لیے تو کوئی امید ہی نہ تھی۔ ہر سال پاکستانی اربوں روپیہ خرچ کر کے بیرونِ ملک سے پیوند کاری کرواتے ہیں۔

 یہاں ڈاکٹرز کا ایک مافیا ہے جس نے اپنی غیر قانونی کمائی اور ذاتی مفاد کے لیے PKLIجیسے خواب کو پاکستانی قوم سے چھینا۔ PKLIایک بہت بڑی اور مثبت امید بن کر ابھرا لیکن مافیا اور سیاسی رقابت نے پاکستانی قوم سے یہ خواب چھین لیا جو قوم پر بہت بڑا ظلم ہے۔

مزید خبریں :