بلاگ
Time 27 ستمبر ، 2019

مونا لیزا کے ڈرائنگ روم کا سرخ کارپٹ

ابھی کل سرمایہ دارانہ تہذیب نے اپنے چہرے پر نئی پلاسٹک سرجری کرائی اور نئے خدو خال کے ساتھ تاریخ کے پردہ سیمیں پر رقص کرتی ہوئی نمودار ہوئی اور کہا: انسانیت کے تمام زخموں کی بینڈج اس کے پاس ہے۔ اجتماعی دانش نے گڈ مارننگ کہتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا کہ عالمِ انسانی میں اب رات کی سپرمیسی ختم ہو جائے گی۔

رو شنیوں کا سفر شروع ہوگا مگر افسوس کہ اس نے ہمیں ایک ہی صدی میں دو عالم گیر جنگوں کے دوزخ میں جھونک دیا۔ پھر بھی اس کی قہرسامانی ختم نہیں ہوئی۔ جہنم کے شعلے ابھی تک آبادیاں راکھ کر رہے ہیں۔

بلاشبہ اس سائنسی تہذیب نے فاصلوں کو کھینچ لیا۔ دنیا مٹھی میں سمیٹ دی۔ عمر بڑھائی۔ بیماریاں کم کیں۔ انسانی دامن سہولتوں سے بھر دیا مگر ہائیڈروجن بم اور ایٹم بم جیسی اندھی قوتوں کو بھی رواج دیا۔ اکیسویں صدی کا آغاز بڑی روشن امیدوں کے ساتھ ہوا تھا مگر اس کی ابتدا بڑے خونی حادثات سے ہوئی۔ 

ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہی موقوف نہیں، دنیا کے ہر گوشے میں تباہی کا بازار گرم رہا۔ مہذب دنیا بلا سوچے سمجھے افغانستان اور عراق پر ٹوٹ پڑی۔ کوئی حساس دل رکھنے والا محفوظ نہ رہ سکا۔ مسلسل ٹیلی وژن کی شریانوں سےلہو بہہ کر مونا لیزا کےڈرائنگ روم کے کارپٹ کو سرخ کر رہا ہے۔ (ہم سب کے جوتے خون سے بھرے ہوئے ہیں)

عمران خان چیختے رہے کہ جنگ نہیں مذاکرات کرو مگر سنگدل کہاں مانتے تھے۔ یہ ظالم دنیا اب پھر شاید اپنا اسلحہ بیچنے کے لئے برصغیر کو نئی جنگ میں جھونکنا چاہتی ہے۔ مودی اُس سنگدل دنیا کا ایک ایجنٹ ہے۔ عمران خان بار بار کہہ رہے ہیں ہم پر جنگ مسلط نہ کرو، وگرنہ تم بھی چین سے نہیں رہ سکو گے۔ یہ ایٹمی جنگ برصغیر تک محدود نہیں رہے گی۔ ساری دنیا اس جنگ کی ہولناک آگ میں بھسم ہو سکتی ہے۔ 

غور سے دیکھا جائے تو اپنے دورۂ امریکہ میں عمران خان لوگوں سے یہی کچھ کہہ رہے ہیں۔ بے شک وہ کامیاب خارجہ پالیسی پر مبارکباد کےحقدار ہیں۔ اقوام عالم کے سامنے کشمیر کا مقدمہ اُن سے بہتر انداز میں آج تک کسی نے پیش نہیں کیا۔ بہت حد تک ’بڑی کرپشن‘ پر بھی کنٹرول کر لیا گیا ہے۔ جھولی کے بڑے بڑے چھید سی لیے گئے ہیں مگر غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ رشوت کے ریٹس بڑھ گئے ہیں۔ اندازہ عمران خان کو بھی ہے۔ تب ہی تو تسبیح کرتے ہوئے نیویارک میں کہا ’’چین ہمارے لئے ترقی کا ماڈل ہے جس نے کروڑوں شہریوں کو غربت سے نکالا، اگر میرے پاس اُسی طرح کا اختیار آ جائے تو میں بھی پاکستان سے کرپشن اور غربت کاخاتمہ کر دوں‘‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی عمران خان کی تسبیح کو کن انکھیوں سے دیکھتا تھا۔ عمران خان کے ہاتھ میں پہلی بار یہ تسبیح پروفیسر احمد رفیق اختر نے دی تھی۔

یقیناً نئے پاکستان کیلئے ہمیں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا کیلئے نیا نظام ریاستِ مدینہ کا نظام ہے جس میں حکمران قاضی القضاۃ بھی ہوتا ہے۔ سپہ سالار اور مذہبی رہنما بھی۔ بے شک یہی وہ نظام جسے ہم مظلوم دنیا کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں مگر اسے چودہ سو سال گزرنے کے باوجود کسی نے پیش نہیں کیا۔ 

علمائے دین شرعِ متین یہ تو کہتے رہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ اسلام کا طرزِ حکمرانی کیا ہے۔ اسلام کے معاشی نظام پر کتابیں لکھیں مگر کہیں یہ نہیں لکھا گیا کہ اسے کس انداز میں رائج کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی تعزیرات پر اسلامی نظریاتی کونسل میں پچھلے چالیس سالوں سے بحث ہوتی چلی آرہی ہے اور ابھی تک جاری ہے۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ اسلامی حکومت کے ادارے کیسے کام کرتے ہیں۔ 

طارق بن زیاد، محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کے کارناموں کی داستانیں لکھیں۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ اسلامی مملکت میں فوج کی حیثیت کیا ہے۔ عدل فاروقی کے واقعات سے اپنی تقریریں تو سجائیں مگر اسلامی نظامِ عدل کی کوئی بات نہیں کی۔ یہ تو سب کہتے ہیں کہ اسلام میں جاگیرداری حرام ہے مگر قانونِ ملکیت پر کوئی بات نہیں کرتا۔ اسلام میں زراعت کا نظام، صحت عامہ کانظام، تعلیم کا نظام، آبپاشی کا نظام کیا ہے۔

اسلامی معاشرہ کیسے تشکیل پاتا ہے۔ کیا یہ نظام صرف انہی ممالک میں نافذ ہو سکتا ہے جہاں مسلمان آباد ہیں یا غیر مسلم بھی اس نظام سے اپنی معاشرت کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ ان سوالوں سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ ریاستِ مدینہ کا نعرہ خالی نعرہ ہو کر رہ گیا ہے۔ وہ افراد جو نظامِ مملکت چلاتے ہیں، جیسے بیورو کریٹس، جج صاحبان، جرنیل وغیرہ، ان کی اخلاقیات پر بحث نہیں ہو سکتی۔ ان کی اقدار کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ صرف اس لئے کہ پارلیمانی نظام کی اخلاقیات اپنی ہیں جو ہماری اخلاقیات سے لگا نہیں کھاتیں۔ 

اگرچہ اب بھی آدھے وزیر ٹیکنو کریٹس ہیں مگر وہ بہتری کیلئے کچھ نہیں کر سکتے۔ اس نظام نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں، سو یہ طے ہے کہ یہ پارلیمانی نظام ہمارے مسائل کا حل نہیں، ہمیں کچھ اور سوچنا ہوگا۔ شاید ہمارے لئے صدارتی نظام زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ اسلام کے زیادہ قریب ہے اور اس کام کیلئے یہ وقت سب سے اہم ہے۔ 

عمران خان کو چاہئے کہ وہ آئینی ریفرنڈم کرائیں اور نظامِ حکومت بدل دیں۔ اس کیلئے کسی نئے آئین کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ آئینی ریفرنڈم سے اس میں صرف اتنی سی ترمیم کی جائے گی کہ تمام اختیارات صدرِ مملکت کے پاس ہوں گے اور صدر کا انتخاب عوام کریں گے۔ اس میں کچھ شقیں چینی نظامِ حکومت کی بھی ڈالی جا سکتی ہیں۔

اپوزیشن بھی اس وقت ایسی صورتحال میں نہیں ہے کہ حکومت کے اس اچھے عمل کے سامنے رکاوٹ بن سکے۔ اس موضوع پر اگر اپوزیشن کے ساتھ گفت و شنید کی جائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ اپوزیشن بھی نظام بدلنے کیلئے حکومت کا ساتھ دے کیونکہ وہ بھی تو اس نظام سے مکمل طور پر مایوس ہو چکی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف اور بلاول زرداری بھٹو بھی ذہنی طور پر صدارتی نظام کےحق میں ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔