29 ستمبر ، 2019
لگتا ہے کہ مکافات عمل کا قانون روبہ عمل ہونے جارہا ہے، عمران خان صاحب جن شاخوں پر بیٹھے ہیں انہی کو کاٹنے لگے ہیں۔
وہ اس جسٹس(ر) سردار رضا کے پیچھے بھی پڑ گئے ہیں، جن کی زیرنگرانی انتخابات میں ان کو وزیراعظم بنوایا گیا۔
ایک رائے تو یہ بھی ہے کہ ان کے وزیراعظم بننے کی بنیادی وجہ بھی یہ تھی کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے جسٹس ارشاد حسن خان کے الیکشن کمیشن جیسا کردار ادا کیا لیکن اب چونکہ عمران خان صاحب کی حکومت اس الیکشن کمیشن کے سربراہ پر حملہ آور ہورہی ہے تو لگتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر بھی ان کے لئے افتخار چوہدری ٖثابت ہوں گے ۔
عمران خان صاحب کی حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اسے عدالتوں کا خوف ہے ، نیب کا ، اپوزیشن کا اور نہ میڈیا کا۔ اس لئے وہ اس ڈھٹائی کے ساتھ غیرقانونی اقدامات اٹھارہی ہے کہ جس کا تصور بھی ماضی کی حکومتیں نہیں کرسکتی تھیں۔
مثلاً الیکشن کمیشن میں دو ممبران کی تقرری کا معاملہ دیکھ لیجئے۔ آئین میں چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا طریقہ کار آئین کے آرٹیکل 213میں واضح انداز میں لکھا گیا ہے جس کی رو سے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت اور باہمی رضامندی سے اس کا تقرر ہوگا اور اگر ان میں اتفاق نہ ہوسکے تو معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا جو رولز کے مطابق دو تہائی اکثریت کے ساتھ ممبران کا تقرر کرے گی ۔
اس کے بعد رولز میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت برائے نام نہیں بلکہ حقیقی (Meaningfull consultation) ہوگی۔
پھر آئین کے آرٹیکل 218 میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کے تقرر کے لئے بھی بعینہ وہی طریق کار اختیار کیا جائے گا جو چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے اختیار کیا جاتا ہےلیکن پی ٹی آئی حکومت نے وزیر قانون فروغ نسیم کے ایما پر سندھ اور بلوچستان کے ممبران کے نام لیڈر آف دی اپوزیشن کے ساتھ کسی مشاورت کے بغیر صدر مملکت کو بھجوا دئیے ۔
نہ تو اپوزیشن لیڈر سے مشاورت ہوئی اور نہ پارلیمانی کمیٹی حتمی فیصلے تک پہنچی ۔تماشہ یہ ہے کہ ان ممبران کے نام پی ٹی آئی نے بھی تجویز نہیں کئے بلکہ فروغ نسیم نے اپنی طرف سے ڈھونڈ نکالے ہیں یا پھر شاید کسی نے انہیں یہ نام تھمادئیے ہیں ۔
اس سے بڑا تماشہ یہ ہوا کہ صدر مملکت عارف علوی نے بھی اس آئینی منصب کے لئے غیرآئینی طور پر مقرر کئے گئے ان دو افراد کے بطورممبران الیکشن کمیشن تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ۔
اگلے دن جب وہ دونوں ممبران چارج لینے کے لئے الیکشن کمیشن آئے تو چیف الیکشن کمشنر نے پہلی مرتبہ جرات اور قانون پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دونوں کو حلف دینے سے انکار کیا۔ انہوں نے یہ قانونی اور آئینی موقف اختیار کیا کہ یہ آئینی منصب ہے اور اس لئے صدر، وزیراعظم اور جج صاحبان کی طرح ان کو حلف دیا جاتا ہے چنانچہ وہ غیرآئینی طریقے سے مقرر کئے گئے ممبران کو آئینی منصب کے لئے حلف نہیں دے سکتے ۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی طرف سے باقاعدہ پریس ریلیز جاری کی گئی کہ ان ممبران کا تقرر آئینی طریقے سے نہیں ہوا ۔یوں الیکشن کمیشن جیسے نامکمل تھا ویسے نامکمل رہ گیا۔
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزارت قانون ان دو ممبران کے تقرر کے لئے دوبارہ آئینی طریقہ کار اختیار کرتی لیکن چونکہ یہ الیکشن کمیشن کی طرف سے عمران خان صاحب اور ان کی حکومت کے خلاف پہلا فیصلہ تھا اس لئے انہیں اور ان کے وزیر قانون کوسخت ناگوار گزرا۔
چنانچہ پہلے تو وزیر قانون کے ایما پر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے کا فیصلہ ہوا لیکن بعد میں جب دیگر آئینی ماہرین نے اس کے مختلف قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیا تو اس ارادے کو ترک کردیا گیا البتہ اب حکومت نے پیچھے رہ کر وزیرقانون فروغ نسیم کے زیر اثر وکلا کے ایک گروپ کے ذریعے اس معاملے کو سپریم کورٹ لے جانے کا منصوبہ بنایا لیکن یہ نہیں دیکھا گیا کہ اگر سپریم کورٹ سے حکومت کے خلاف اور چیف الیکشن کمشنر کے حق میں فیصلہ آیا تو پھر کیا ہوگا۔
سپریم کورٹ میں وکلا کا موقف ہوگا کہ چیف الیکشن کمشنر نے غیرآئینی کام کیا لیکن اگر فیصلہ ان کے حق میں آیا تو اسکا یہ مطلب ہوگا کہ وزیراعظم اور صدر مملکت نے آئین کی خلاف ورزی کی ۔
یوں فیصلہ حکومت کیخلاف آجانے کی صورت میں صدر اور وزیراعظم کیخلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے کیونکہ اس صورت میں ان کا یہ اقدام Subversion of the constitution کے زمرے میں آجائیگا کیونکہ آرٹیکل چھ کا اطلاق صرف آئین کو توڑنے یا معطل کرنے کی صورت میں نہیں بلکہ اسکے غلط اطلاق یعنی Subversion کی صورت میں بھی کیا جاتا ہے ۔
آئین کے آرٹیکل 6کے الفاظ ہیں کہ :
Any person who abrogates or subverts or suspends or holds in abeyance, or attempts or conspires to abrogate or subvert or suspend or hold in abeyance, the Constitution by use of force or show of force or by any other unconstitutional means shall be guilty of high treason.
بیرسٹر فروغ نسیم اپنے مخصوص مقاصد کے لئے اور وزیراعظم اپنی انا کی تسکین کے لئے یہ سب کچھ کررہے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ان کے اس رویے سے الیکشن کمیشن سے متعلق آئینی بحران بھی جنم لے سکتا ہے ۔
وہ یوں کہ اگر وزیراعظم ممبران سے متعلق لیڈر آف دی اپوزیشن سے ملنے کے لئے تیار نہیں تو پھر چیف الیکشن کمشنر پر کیسے ان دونوں کی مشاورت ممکن ہوگی ۔ دوسری طرف چیف الیکشن کمشنر کی مدت چند ماہ بعد پوری ہونے کو ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب چیف الیکشن کمشنر کی مدت پوری ہوجائے گی اور نئے کا تقرر نہیں ہوا ہوگا تو پھر کیا ہوگا؟
اس صورت میں اگر تو سپریم کورٹ نے کوئی حل نکال دیا یا موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو اگلے چیف کے تقرر تک کام کرنے کا اختیار دے دیا تو الگ بات ،نہیں تو الیکشن کمیشن کام نہیں کرسکے گا۔
واضح رہے کہ یہ سب کچھ ایسے عالم میں ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی کاپارٹی فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں کئی سال سے زیرسماعت ہے اور اگر اس کیس کا اسی طرح میرٹ پر فیصلہ دیا گیا جس طرح کےاپوزیشن کے کیسز کا کیا جاتا ہے تو قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت فارغ ہوجائے گی۔
تبھی تو میں کہتا ہوں کہ فروغ نسیم اس حکومت کو فارغ تو کرسکتے ہیں لیکن اسے کوئی فروغ نہیں دے سکتے۔