30 ستمبر ، 2019
افغانستان میں دو روز قبل ہونے والے صدارتی انتخابات میں حق رائے دہی استعمال کرنے کی شرح کو 2001 کے بعد سب سے کم قرار دیا جا رہا ہے۔
افغانستان میں 28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں 15 امیدواروں میں سے 3 کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔
افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی دوسری مرتبہ صدر بننے کے لیے پرامید ہیں جب کہ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی صدر بننے کی دوڑ میں نمایاں ہیں، ان دونوں کے علاوہ افغانستان کے سابق وزیراعظم، جنگجو اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار بھی مضبوط امیدواروں میں شامل ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی نے گزشتہ روز اپنے بیان میں بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کرنے پر عوام کا شکریہ ادا کیا تھا لیکن غیر ملکی میڈیا کی جانب سے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے ٹرن آؤٹ کو بھیانک ترین ووٹر ٹرن آؤٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ 3 کروڑ 50 لاکھ نفوس پر مشتمل افغانستان کے 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے صرف 22 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جو 2001 میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹائے جانے کے بعد سب سے کم ترین شرح ہے۔
انڈیپنڈنٹ ٹرانسپیرنٹ الیکشن کمیشن آف افغانستان کی منیجر صغریٰ سادات کا کہنا ہے کہ ووٹر ٹرن آؤٹ 18 سال کی کم ترین سطح پر رہا، حتیٰ کہ ملک کے محفوظ ترین مقامات، جہاں ماضی میں ٹرن آؤٹ زیادہ تھا وہاں بھی ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہی۔
انتخابات کا قریب سے جائزہ لینے والے حکام کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات، فراڈ کا خوف اور الیکشن کے عمل میں بے ضابطگیوں کے باعث عوام ووٹنگ کے عمل سے دور رہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 2014 میں ہونے والے انتخابات میں ایک کروڑ 20 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 70 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔
عرب میڈیا کے مطابق انتہائی کم ووٹر ٹرن آؤٹ کے باوجود افغان حکام انتخابی عمل کو کامیاب قرار دے رہے ہیں اور اس کی وجہ وہ طالبان کی دھمکیوں کے باوجود ملک بھر میں ہونے والے پرامن انتخابات اور انتخابی وقت کو دو گھنٹے آگے بڑھانا بتا رہے ہیں۔
افغانستان کے اینالسٹ نیٹ ورک کے مطابق ووٹنگ کے روز ملک بھر میں 400 چھوٹے بڑے حملے ہوئے جب کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے انتخابات والے روز 531 حملے کئے اور افغان وزارت داخلہ دشمن کی جانب سے 68 حملوں کو تسلیم کر رہی ہے۔
افغانستان میں ہونے والے انتخابات کے ابتدائی نتائج 17 اکتوبر تک متوقع ہیں اور حتمی نتائج 7 نومبر تک سامنے آ سکیں گے، اگر اس دوران کوئی بھی امیدوار آدھے سے زیادہ ووٹ نہ لے سکا تو پھر پہلے دو امیدواروں کے درمیان انتخابات کا دوسرا مرحلہ ہو گا۔