کشمیریوں کی آواز عمران اور اردوان

ترک صدر رجب طیب اردوان جب سے عالمی لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اُنہوں نے ہمیشہ ہی اقوام متحدہ کے ڈھانچے اور خاص طور پر پانچ ممالک کو حاصل ویٹو پاور کے خلاف آواز بلند کی ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ویٹو پاور کے ذریعے اسلامی ممالک کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے اور ان کے کسی بھی مسئلے کو آج تک اقوام متحدہ نے حل نہیں کیا ہے۔

اس لئے ان کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اقوام متحدہ کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ نے نمبیا کی آزادی، سوڈان کی تقسیم اور انڈونیشیا کے مشرقی تیمور کی آزادی کے بارے میں عیسائی عوام کے مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کرلیا لیکن مسئلہ فلسطین، مسئلہ قبرص اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے بارے میں مسلمانوں کے کسی بھی مطالبے پر اس نے کان نہیں دھرے ہیں۔

نہرو کی اقوامِ متحدہ میں کشمیر سے متعلق دہائی دینے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق یعنی کشمیر میں استصوابِ رائے کروانے سے متعلق قرارداد منظور کرلی لیکن بدقسمتی سے اس پر آج تک عمل درآمد نہیں کروایا جاسکا۔ اسی وجہ سے ترک صدر اقوام متحدہ کو ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہیں اور پانچ ممالک کی دنیا کے تمام دیگر ممالک پر بالادستی اور حاکمیت پر مشتمل ڈھانچے کو ختم کروانے کے لئے کئی ایک تجاویز پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے مظلوم ممالک کی آواز بن کر اس ادارے کے ڈھانچے کو تبدیل کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

صدر اردوان نے اس بار بھی ہمیشہ کی طرح اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر اور روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔

اُنہوں نے کہا کہ دنیا کے مستقبل کو صرف پانچ ممالک کے ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیر اور کشمیریوں کا محاصرہ جاری ہے۔ آٹھ ملین افراد بدقسمتی سے پانچ اگست سے آج تک اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور جیسے ہی ان کو موقع ملتا ہے قابض بھارتی فوج کے مظالم کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہیں اور دنیا تک اپنی آواز پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے استحکام و خوشحالی کو مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں کیا جا سکتا، مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے انصاف اور سچائی کو بنیاد بناتے ہوئے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر اردوان کے خطاب کے بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ترک صدر کے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اٹھانے پر پہلے پریس کانفرنس میں اور بعد میں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شکریہ ادا کیا۔

صدر اردوان کے خطاب سے قبل کسی بھی عالمی رہنما خاص طور پر اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے مقبوضہ کشمیر میں ایک ماہ سے زیادہ جاری کرفیو کےخلاف کچھ کہنے سے اجتناب کیا۔ اقوامِ متحدہ میں جس جوش و جذبے سے ترک صدر اردوان نے یہ مسئلہ اٹھایا اس نے تمام کشمیریوں اور پاکستانیوں کو ایک بار پھر اپنا گرویدہ بنالیا۔ اگلے روز صدر رجب طیب اردوان اور پاکستان کے وزیراعظم کی مشترکہ میزبانی میں نفرت انگیز مواد کے زیر عنوان اجلاس میں ترک صدر نے ایک بار پھر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ترکی کشمیر کی آزادی تک کشمیریوں کی بھر پور حمایت کرتا رہے گا۔

انہوں نے اس موقع پر کہا کہ بدقسمتی سے مسلمان آج نفرت انگیز مواد کا سب سے زیادہ شکار بنے ہوئے ہیں اور مسلمان خواتین کو صرف حجاب کی وجہ سے گلیوں، سڑکوں، مارکیٹوں اور کاروباری مراکز میں ہراساں کیا جاتا ہے۔

انہوں نے دنیا کو متنبہ کرتے ہوئے امن کے مذہب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کو بد اخلاقی قراردیا۔ انہوں نے اس موقع پر مسئلہ کشمیر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اس وقت ایک کھلی جیل میں تبدیل کردیا گیا۔ انہوں نے بھارت میں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کی وجہ سے زندہ جلائے جانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس قسم کا سیکولر ملک ہے جہاں مسلمانوں کو نہ صرف گائے کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں ہے بلکہ گائے کا گوشت کھانے والوں کو زندہ جلادیا جاتا جبکہ ترکی بھی ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق ہر قسم کا گوشت اور مذہبی سرگرمیاں جاری رکھنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے نفرت انگیز مواد سے متعلق اجلاس میں فرطِ جذبات میں بہہ کر جس طریقے سے اپنے خیالات کو پیش کیا صدرِ ترکی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے اجلاس کے فوراً بعد عمران خان کو گلے لگاتے ہوئے مبارکباد پیش کی۔

صدر اردوان کے جنرل اسمبلی میں کشمیر اور پاکستان کی حمایت میں خطاب سے ترک صدر دنیا بھر میں ٹویٹر پر "OurVoiceErdogan#" ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹرینڈ ٹاپک بن گئے اور عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر آ گئے۔

اس مواد میں صدر اردوان کے بلا تفریق مظلوموں، بین الاقوامی نظام کی ناانصافیوں اور حق تلفیوں پر اعتراضات کو ہر پلیٹ فورم پر بڑے دلیرانہ طریقے سے پیش کرنے کی بنا پر انہیں عالم اسلام کی موجودہ دور کی عظیم شخصیت قرار دیا جا رہا ہے۔

ترک صدر ایردوان نے کشمیر سے متعلق اپنی حمایت کا اعلان استنبول میں پاکستان کو 4جدید بحری جہازوں کی فراہمی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی کیا اور واضح طور پر اس بات کا اظہار کیا کہ وہ کشمیر کی آزادی تک کشمیر کی حمایت کو جاری رکھیں گے۔ اس لئے ترک صدر ایردوان جب 24اور 25اکتوبر (حتمی تاریخ کا تا دم تحریر کوئی سرکاری فیصلہ نہیں ہوا) کو پاکستان کے دورے پر تشریف لائیں تو ان پر محبت نچھاور کرتے ہوئے ایسا شاندار فقید المثال استقبال کریں جو پاک ترک کشمیر دوستی کی علامت بن جائے۔

مزید خبریں :