02 اکتوبر ، 2019
سانحہ چونیاں کے ملزم سہیل شہزاد کو پولیس نے تحقیقات کے دوران انتہائی مہارت سے گرفتار کیا۔
چونیاں میں چار بچوں کا زیادتی کے بعد قتل پولیس کے لیے معمہ بن چکا تھا جس کے بعد بلآخر سخت محنت کے بعد ملزم کو ٹریس کر لیا گیا۔
گرفتاری کیلئے پولیس کی پلاننگ
پولیس کے مطابق ملزم کی گرفتاری کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور ملزم کا سراغ لگانے کےلیے ہر طریقہ استعمال کیا۔
پولیس کے مطابق اہلکاروں نے بھیس بدل کر فرائض انجام دیے اور گلی گلی پاپڑ، پکوڑے، چپس، پھل اور قلفیاں فروخت کیں، اس کے علاوہ پولیس اہلکاروں نے غبارے، سگریٹ فروخت کیے اور رکشہ بھی چلایا۔
پولیس نے مزید بتایا کہ ملزم کی گرفتاری کے لیے لیڈیز پولیس نے عام خواتین کی طرح مارکیٹوں میں فرائض انجام دیے۔
رکشے کے ٹائروں کے نشان سے ملزم کا سراغ لگایا
تفتیشی افسران کے مطابق مقتول بچوں کی باقیات والی جگہ سے رکشے کے ٹائروں کے نشانات ملے تھے جس پر چونیاں میں 248 رکشہ ڈرائیوروں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا، انہی میں ملزم سہیل شہزاد بھی تھا جو کچھ عرصہ قبل کرائے پر رکشہ لے کر چلاتا رہا۔
سفاک ملزم سہیل شہزاد کو 29 ستمبر کو ڈی این اے کے لیے تھانے بلایا گیا جس پر ملزم نے لاہور فرار ہونے کی کوشش کی اور ایک مسافر وین میں سوار ہو گیا، پولیس اہلکاروں نے اسے ڈھونڈ نکالا اور وین سے اتار کر تھانے لے آئے۔
ڈی این اے سیمپل لینے بعد ملزم کو شخصی ضمانت پر چھوڑ دیا گیا اور 2 دن بعد ڈی این اے مثبت آنے پر ملزم سہیل شہزاد کو گرفتار کر لیا گیا۔
پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف 8 سال پہلے بھی چونیاں میں ہی بچے سے زیادتی کا مقدمہ درج ہوا تھا جس پر اسے سزا بھی ہوئی تھی۔
ملزم جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
پولیس نے ملزم سہیل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جہاں پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے بچوں کو اغوا کیا اور ان کے ساتھ بدفعلی کی، بدفعلی کے بعد بچے کو قتل کیا، ملزم سہیل کا ڈی این اے بچے فیضان کے ساتھ میچ ہوگیا، دیگر کیسز کی ڈی این اے رپورٹ آئے گی تو پھر وہ کیس الگ بنائیں گے۔
پولیس نے بتایا کہ 1668 افراد کا ڈی این اے لیا گیا لیکن ملزم سہیل کا ڈی این اے میچ ہوا۔
پولیس نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے ملزم کو 15 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
یاد رہے کہ قصور کی تحصیل چونیاں میں ڈھائی ماہ کے دوران 4 بچوں کو اغواء کیا گیا جن میں فیضان، علی حسنین، سلمان اور 12 سالہ عمران شامل ہیں، ان کی لاشیں جھاڑیوں سے ملی تھیں جب کہ بچوں سے زیادتی کی بھی تصدیق ہوئی تھی۔
اس واقعے کے بعد چونیاں شہر میں عوام کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور تھانے پر حملہ کیا گیا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بچوں کے اغواء، زیادتی اور پھر قتل کے واقعے کی تحقیقات کیلئے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) کی سربراہی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی ) تشکیل دی تھی۔