Time 03 اکتوبر ، 2019
کاروبار

حکومت نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کا فائدہ عوام تک منتقل نہیں کیا

فائل فوٹو

اسلام آباد: عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی کمی کا فائدہ عوام تک منتقل نہیں کیا گیا۔

حکومت نے پٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر پٹرولیم لیوی میں یکم اکتوبر،2019 سے اضافہ کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق حکومت پٹرولیم لیوی اور جی ایس ٹی کے طور پر ڈیزل پر 40روپے اور پٹرول پر 38روپے لے رہی ہے۔

یکم اکتوبر 2019 سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کے لیے حکومت نے ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) اور پٹرول (ایم ایس)پر پٹرولیم لیوی میں اضافہ کردیا ہے، لائٹ ڈیزل آئل پر بھی پٹرولیم لیوی میں یکم اکتوبر،2019سے اضافہ کیا گیا ہے البتہ مٹی کے تیل میں تھوڑی کمی کی گئی ہے۔

دی نیوز کے پاس موجود سرکاری اعداد وشمار کے مطابق، ہائی اسپیڈ ڈیزل پر پٹرولیم لیوی 18روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 20اعشاریہ76روپے فی لیٹر کردی گئی ہے۔اس کے علاوہ 17فیصد جی ایس ٹی بھی لی جارہی ہے۔ اس طرح صارفین سے 40روپے فی لیٹر وصول کیے جارہے ہیں۔

مقامی مارکیٹ میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 127اعشاریہ14روپے فی لیٹر ہے۔پٹرول پر پٹرولیم لیوی میں 2اعشاریہ17روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔

مقامی مارکیٹ میں رواں ماہ میں پیٹرول کی قیمت 113اعشاریہ24روپے فی لیٹر رکھی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں کہ جب ایف بی آر کو رواں مالی سال کی ابتدائی سہ ماہی میں 100سے 104ارب روپے کے ریونیو کمی کا سامنا ہے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ عوام کو ریلیف فراہم نا کیا جائے۔

اس پالیسی سے حکومت کا یہ موقف کمزور ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ پی او ایل مصنوعات کی قیمتیں عالمی مارکیٹ سے منسلک ہیں۔

جب عالمی مارکیٹ میں پی او ایل مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو حکومت قیمتیں بڑھا دیتی ہے لیکن جب عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہوتی ہیں تو حکومت صارفین کو ریلیف فراہم نہ کرنے کے لیے مختلف عذر تراشتی ہے۔

فنانس ڈویژن کے اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق بنیادی خسارے کی روک تھام کے لیے کیا ہے کیوں کہ آئی ایم ایف نے ستمبر،2019کے آخر تک بنیادی خسارے کا ہدف 102ارب روپے دیا تھا۔

عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے ایف بی آر کی ریونیو کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔

ایف بی آر کی ریونیو کمی کے بعد نان ٹیکس ریونیو پر انحصار بڑھ گیا ہےکیوں کہ یہ مرکز کے حق میں ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت نان ٹیکس ریونیو میں صوبوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ پہلی سہ ماہی کے 102ارب روپے کے بنیادی خسارے کا تعلق ریفنڈز کے کلیئرنگ اسٹاک کی فراہمی سے ہے۔

ابتدائی سہ ماہی میں آئی ایم ایف کی 75ارب روپے کی سیلنگ کے مقابلے میں ایف بی آر نے 30ارب روپے ریفنڈز کی ادائیگی کی ہے۔

اس صورت حال میں بنیادی خسارے کا ہدف 57ارب روپے تک کم کیا جاسکتا ہے۔

تاہم جب ایف بی آر کے اعلیٰ حکام سے اس ضمن میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ریفنڈز کے اجرا کا بنیادی خسارے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آئی ایم ایف معاہدے کے تحت اسلام آباد کو رواں مالی سال کے دوران بنیادی خسارہ جی ڈی پی کے اعشاریہ6فیصد تک لانا ہے۔

گزشتہ مالی سال کے دوران جس کا اختتام 30جون ، 2019کو ہوا تھا اس میں بنیادی خسارہ جی ڈی پی کا3اعشاریہ5فیصد دیکھا گیا تھا۔

مزید خبریں :