پندرہ لاکھ کا لشکر جرار

آخر کار مولانا فضل الرحمٰن نے 27اکتوبر کو پندرہ لاکھ کےلشکرِجرار کے ساتھ اسلام آباد جانے کا اعلان کردیاہے ۔ یہ مجاہدپاکستان کے مختلف علاقوں سے دارالحکومت میں داخل ہوں گے۔ کاروں، ویگنوں اور بسوں کے ذریعے پہنچیں گے ۔ اگر اوسطاً ایک گاڑی میں دس آدمی آئیں تو تقریباً ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں اسلام آباد آئیں گی۔

ایک گاڑی کے پٹرول پر کم سے کم پانچ ہزارخرچ آئے تو پٹرول کے لئے صرف 75 کروڑ روپیہ درکار ہے۔ اگر ایک آدمی ایک دن میں پانچ سو روپے کا کھانا کھائے تو پندرہ لاکھ آدمی 75 کروڑ روپے کا روزانہ کھانا کھائیں گے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پندرہ لاکھ آدمی کہاں سے آئیں گے۔

مولانا کا خیال ہے کہ ستر اسی فیصد مدارس کے طالب علم ہونگے۔ مدارس کی دو تنظیمیں ہیں ایک تنظیم المدارس اور دوسری وفاق المدارس۔ میں نے دونوں سے رابطہ کیا۔

تنظیم المدارس والوں نے تو کہا: ہمارے کسی مدرسے کا کوئی طالب علم اس احتجاج میں حصہ نہیں لے گا۔ وفاق المدارس والوں کا کہنا تھا، مولانا کے حامی مدارس ملک بھر میں دو اڑھائی ہزار ہیں۔ وہاں کے طلبا احتجاج میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اگر ایک مدرسہ سے ایک سو طالب علم بھی آئیں تو زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی لاکھ لوگ جمع ہو سکتے ہیں۔

اسلام آباد پہنچنے کے دو راستے ہیں۔ ایک خیبر پختون خوا سے ہے اور دوسرا پنجاب سے ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا نے کہہ دیا ہے کہ وہ انہیں اسلام آباد کی طرف نہیں جانے دیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی یہی اعلان کرنے والے ہیں۔ ویسے بھی سرکار کے لئے انہیں روکنا بہت آسان ہے۔ بس ہر مدرسے کے باہر پولیس کی ایک گاڑی کھڑی کرنے کی ضرورت ہے۔ امن و امان کےلئے مدرسے کے منتظم کو سرکاری تحویل میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا نہیں کہ مولانا کوئی بڑا جلوس لے کر اسلام آباد پہنچ سکیں گے۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

چونکہ یہ تمام احتجاجی مدرسوں کے طالب علم ہونگے اس لئے اِس ہجوم ِ عاشقان ِ فضل الرحمٰن کی قیادت کرنے پر بلاول بھٹو تو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ شہباز شریف بھی معذرت کر چکے ہیں۔

جب ’’دھرنے ‘‘کے موضوع پر بلاول بھٹو اور شہباز شریف کی ملاقات ہوئی توبلاول بھٹو نے پوچھا ۔’’کیا دھرنا دینے سے حکومت جا سکتی ہے ‘‘۔’’دھرنوں سے حکومتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں ‘‘شہباز شریف نے کہا ۔اورپھر اس بات پر اتفاق کرلیاگیا کہ ہم نے دھرنے میں شریک نہیں ہونا۔احتجاجی جلوس کا حصہ بھی اُسی صورت میں بنیں گے جب ہمیں پورا یقین ہوگا کہ یہ جلوس پرامن رہے گا۔مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔

مولانا کامسئلہ یہ ہے کہ مذہب کا سہارا لئے بغیر ان کا جلوس یا دھرنا کامیاب نہیں ہو سکتا ۔اس لئے امکان بہت کم ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں مولانا کے احتجاج میں شریک ہونگی ۔اگر چہ نواز شریف نے وکٹ کے دونوں طرف کھیلتے ہوئے مولانا کی حمایت کا اعلان کیا ہے مگرمولانا کو یقین نہیں ۔انہیں لگتا ہے کہ نون لیگ احتجاج میں ان کے ساتھ نہیں ہوگی۔

اسی خوف سےمولانا نے نواز شریف سے ملاقات کا فیصلہ کیا ہے۔وہ پورے وفد کے ساتھ جیل میں نواز شریف سے ملنا چاہتے ہیں مگر ابھی تک پنجاب کےہوم سیکرٹری نےمولانا کونواز شریف سے ملاقات کی اجازت نہیں دی ۔اب اقتدار کے دیوانےگلی گلی پکارتے پھرتے ہیں

راستے بند کئے دیتے ہو دیوانوں کے

شہر میں ڈھیر نہ لگ جائیں گریبانوں کے

پیپلز پارٹی اور نون لیگ احتجاج ’’بیڈگورننس‘‘ کے سلوگن پر کرنا چاہتی ہیں کہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ معاشی بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ نو ارب ڈالر کے اضافی قرضے لئے گئے ہیں، روپے کی قدر میں تاریخ میں سب سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔

بلدیاتی نظام جمود کا شکار ہے۔ سرکاری محکموں میں اصلاحات نہیں ہو سکیں۔موجود ہ پالیسیوں کے سبب ہونے والی مہنگائی کا شکار متوسط طبقہ ہے مگر مولانا کوان موضوعات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے کارڈ کے سوا احتجاج کو کا میاب کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔

کھڑکیاں بند دماغوں کی جہاں ہوتی ہیں

دیکھنے والی وہاں آنکھیں کہاں ہوتی ہیں

لگتا ہے اس احتجاج میں مولانا اکیلے ہی ہوں گے۔ امکان یہی ہے کہ اِن مدارس کے طالب علموں اور ان کی لیڈر شپ کا وہی حال ہو گا جو اس سے پہلے جو مولانا خادم حسین رضوی اور ان کے ساتھیوں کا ہوا تھا۔

اب اس ملک میں مذہبی افراتفری کی کوئی گنجائش نہیں۔ مذہب کے نام پر دہشت گردی، احتجاج، فنڈ ریزنگ، ایک ایسی حکومت میں تو بالکل جائز نہیں جس کا اپناسلوگن ہی ریاست ِ مدینہ کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔ جس کے سربراہ نے اقوام متحدہ میں پہلی بار دنیا کواسلام یعنی سلامتی کا پیغام دیا۔ ناموس ِ رسالت کے معاملے پر اس سے زیادہ کسی نے اجاگر نہیں کیا اور امت ِ مسلمہ کے نمائندہ حکمران کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آیا ہے۔ یہ الگ بات کہ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں

سچ سمجھ کر ترے بیانوں کو

ہاتھ چھونے لگے ہیں کانوں کو

یہ احتجاج ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب پاکستان جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ گزشتہ روز امریکی، برطانوی اور جرمن اخبارات کی ٹائٹل اسٹوری یہ تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ دس کروڑ انسانوں کی فوری موت کا سبب بن سکتی ہے۔

ان دونوں ممالک کے درمیان جوہری تصادم انسانی تاریخ کا آج تک کا ہلاکت خیز ترین تنازعہ ثابت ہو گا۔یعنی اس وقت یہ احتجاج سو فیصد پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہے ۔اس وقت تو تمام سیاسی پارٹیوں کو غیر مشروط طور پر حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید خبریں :