07 اکتوبر ، 2019
رنگ برنگے کاغذوں میں جگہ جگہ بکنے والے گٹکے کی تیاری میں ہر وہ مضر صحت چیز استعمال کی جاتی ہے جو کینسر کے علاوہ مسوڑھوں، حلق، پھیپھڑوں، معدے کی جان لیوا بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
گٹکے اور مین پوری کے شائقین یہ جاننے کے باوجود کہ گٹکا اور مین پوری کینسر جیسی مہلک بیماری کا سبب بن سکتا ہے، اپنی لت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہوتے۔
گٹکے کی تیاری میں بنیادی طور پر خشک چھالیہ، تمباکو، کتھا اور چونے کا استعمال کیاجاتاہے۔ گٹکے میں جو سپاری استعمال ہوتی ہے وہ سی گریڈ یعنی سب سے ناقص قسم کی ہوتی ہے۔
بعض جگہوں پر یہ گٹکا ’تر‘ ہوتا ہے یعنی اسے خشکی سے بچانے کے لیے اس میں بار بارکتھے کا پانی، زعفران اور غیر ملکی تمباکو ملایا جاتا ہے۔
مختلف افراد گٹکے میں صرف ایک قسم کے تمباکو پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ بھارت میں تیار ہونے والے کئی کئی تمباکو اس میں ڈال کر کھاتے ہیں لیکن جیسے جیسے تمباکو کا ذائقہ بڑھتاجاتا ہے گٹکے کی قیمت بھی بڑھتی جاتی ہے۔
مختلف علاقوں میں گٹکے کو ’ماوہ‘ یعنی کھویا بھی کہا جاتا ہے، ماوہ میں تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ کیوڑا اور چاندی کا ورق بھی ملایا جاتا ہے۔
گٹکا جن چھالیوں سے تیار کیا جاتا ہے اس میں فنگس یعنی پھپھوندی آجاتی ہے جسے عام افراد کی زبان میں کیڑے کہا جاتا ہے۔
فنگس کی تیزی اور کڑواہٹ کم کرنے کے لیے اس میں مصنوعی کھانے کے رنگوں کی ملاوٹ کردی جاتی ہے۔ بعض اوقات تمباکو کا ذائقہ بھی اس کی کڑواہٹ کو چھپالیتا ہے اورجو لوگ اسے کھانے اور اس کے نشے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں وہ آسانی سے اسے چھوڑ نہیں پاتے۔