08 اکتوبر ، 2019
لندن: برٹش پاکستانی ارب پتی اور بیسٹ وے گروپ کے بانی سر انور پرویز نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان اب بھی میرے ڈراؤنے خوابوں میں آتے ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ انھوں نے سوموٹو ایکشنز کے ذریعے پاکستان میں میرے کاروبار کو بہت نقصان پہنچایا۔
ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس نے ان کی سیمنٹ فیکٹری اور بینک کو نشانہ بنایا۔
انھوں نے الزام عائدکیا کہ سابق چیف جسٹس نے ان کے کاروباری اداروں کو غیرمنصفانہ طورپر ہدف بنایا۔ انھوں نے یہ بات عدالت کی جانب سے دیئے گئے سخت کمنٹس کے مہینوں چلنے والی منفی کوریج کے حوالے سے کہی۔
انھوں نے کہا کہ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس اور پریس میرے ڈراؤنے خواب ہیں۔
انھوں نے یہ بات 2018 میں کٹاس راج کے مقدمے کے حوالے سے کہی، جو سیمنٹ کمپنیوں کی جانب سے زیر زمین پانی کے غلط استعمال کے بارے میں تھا۔
سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ یہ سیمنٹ فیکٹریاں ایکو سسٹم کو تباہ کر رہی ہیں اور خاص طورپر بیسٹ وے گروپ کی سیمنٹ فیکٹری پر تنقید کی تھی۔
یہ مقدمہ اس وقت ختم ہوا جب سیمنٹ فیکٹریوں نے پانی کی فراہمی کا اپنا انتظام کرلیا، یونائیٹڈ بینک کے شیئرز کی اکثریت بیسٹ وے گروپ کے پاس ہے اور سابق چیف جسٹس نے یوبی ایل کو بھی عدالت میں گھسیٹا تھا۔
یہ مقدمہ اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے بعد ثاقب نثار نے کھلے عام مجھ سے معذرت کی لیکن انھوں نے ہم پر جو ملبہ ڈالا، اس نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا، ہمیں ہدف بنایا گیا جو کہ نامناسب تھا۔
انھوں نےانکشاف کیا کہ انھوں نے پاکستان کی ایک بااثر اور مقتدر شخصیت سے ملاقات کی تھی لیکن انھوں نے اس شخصیت کا نام نہیں بتایا، یہ ملاقات اس لئے ہوئی تھی کہ سرانور پرویز سابق چیف جسٹس کی جانب سے مبینہ طورپر نامناسب نشانہ بنائے جانے پر اپنی ناراضی کا اظہار کرسکیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر کسی کے پیٹ میں درد ہو تو ایک ہی ڈاکٹر ہے، جس کے پاس جایا جاسکتا ہے۔
میں نے بھی ایسا ہی کیا تھا لیکن اس کاکوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا، مجھ سے کہا گیا کہ میرا پیغام پہنچا دیا جائے گا لیکن مقدمہ اب بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
سر انور پرویز نے کہا کہ طویل عرصے تک وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا پیغام جج تک نہیں پہنچایا جارہا ہے لیکن بعد میں جب جسٹس نثار نے مجھے دیکھا اور اشارہ دیا کہ وہ جانتے ہیں کہ سرانور نے ان کے خلاف شکایت کی تھی، تو انھیں احساس ہوا کہ ان کی شکایت پہنچائی گئی ہے لیکن ابھی تک انھیں کوئی ریلیف نہیں ملی ۔
سرپرویز نے خیال ظاہر کیا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل (3)184 کے تحت سوموٹو احتیاط سے لی جانی چاہئے اور وزیراعظم عمران خان کو اداروں کومضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہئے اور ایسا سسٹم بنانا چاہئے جو کسی شخصیت کا محتاج نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ اس میں مداخلت ہوسکتی ہے لیکن سسٹم ایسا ہونا چاہئے جو اس کا مقابلہ کرسکے۔
انھوں نے کہا کہ انھیں ملک کو خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کے حوالے سے عمران خان کی نیک نیتی پر بھروسہ ہے۔ نومبر2018 میں لندن میں ڈیم کیلئے فنڈ جمع کرنے کی ایک تقریب میں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان نے بیسٹ وے گروپ کے مالکان سر انور پرویز اور لارڈ ضمیر چوہدری کی پانی کی بچت کیلئے سپریم کورٹ کے حصے کے طور پر کام کرنے پر تعریف کی تھی۔
انھوں نے کھلے عام کہا تھا کہ میں بیسٹ وے گروپ سے معذرت خواہ ہوں، جو بدقسمتی سے میری عدالتی ایکٹیوازم کا نشانہ بنے، آپ بہت مخیر ہیں اور میں آپ کا مشکور ہوں، ہم نے 6 نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے اور آپ نے مجھے یقین دلایا ہے کہ آپ اپنے پلانٹس کو جدید تر بنالیں گے اور ٹیوب ویل سے پانی نہیں لیں گے، آپ نے ایک بلین روپے بھی دیئے ہیں اورغیر معمولی کردار ادا کیا ہے اور آپ نے جو وعدہ کیا تھا، آخری تاریخ سے بہت پہلے ویسا ہی کیا ہے، یہ حقیقی محبت اور جذبے کا مظاہرہ کیا ہے، اوورسیز پاکستانیو ں سے جو مجھے ملا ہے۔
اسی تقریب میں لارڈ ضمیر چوہدری نے ڈیم کی تعمیر کیلئے 6لاکھ پونڈ عطیہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس تقریب سے قبل سابق چیف جسٹس پاکستان اور بیسٹ وے گروپ کے درمیان ایک ملاقات ہوئی تھی، تقریب سے قبل بیسٹ وے گروپ پاکستان نے ڈیم فنڈ کیلئے 3لاکھ پونڈ عطیہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس تقریب کے بعد لارڈ ضمیر چوہدری نے جیو نیوز کو بتایا تھا کہ وہ چیف جسٹس کی جانب سے کھلے عام بیسٹ وے گروپ کے کنٹری بیوشن کا اعتراف کرنے پر ان کے شکر گزار ہیں اور چیف جسٹس کی جانب سے ذاتی طور پر اس کا اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ بیسٹ وے گروپ پاکستان اخلاقی معیار کے مطابق کاروبار کر رہا ہے۔