Time 09 اکتوبر ، 2019
پاکستان

نہ تو عمران اور شیخ رشید نے کبھی ہماری سنی اور نہ مولانا نے۔

فائل فوٹو

ایک ہے مذہب کی خدمت اور دوسرا ہے ذاتی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اول الذکر جتنا مقدس تو ثانی الذکر اتنا ہی قبیح عمل ہے۔ اول الذکر ایمان کا تقاضا ہے تو ثانی الذکر ایمان کا خسارہ۔

اس لئے دونوں کو خلط ملط کرنے کا جو سلسلہ چل نکلا ہے اس کا تدارک کرنا ہر صاحبِ ایمان کا فرض ہے۔

ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں کہ جہاں دو قومی نظریے پر ایمان کو محبِ وطن بننے کے لئے لازمی سمجھا جاتا ہے اور جو کوئی دو قومی نظریے سے متعلق سوال اٹھاتا ہے تو اس کے ایمان اور حب الوطنی سے متعلق بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں مذہب کا کوئی کردار ہی نہیں ہونا چاہئے تو انہیں پہلے قائداعظم اور اقبال کا انکار کرنا ہوگا۔ ان دونوں نے اپنی سیاست کی بنیاد مذہب پر رکھ دی تھی۔

ان کی جدوجہد خالص سیاسی جدوجہد تھی لیکن اس کی بنیاد انہوں نے اس فلسفے پر رکھ دی کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں اور چونکہ دونوں اکھٹے نہیں رہ سکتیں اس لئے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک بننا چاہئے۔

تبھی تو انہوں نے پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کا نعرہ لگایا۔ اس لئے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں اور سیاسی نظام کو دین کی تعلیمات کے مطابق استوار کرنے کے لئے جدوجہد کرنے والوں میں تفریق کرنا ہوگی لیکن اگر ہم سب کو ایک لاٹھی سے ہانکیں گے تو پھر ہمیں اقبال اور قائداعظم کو بھی یہ الزام دینا ہوگا کہ انہوں نے سیاست کے لئے مذہبی کارڈ کو استعمال کیا۔

ہم بھی عجیب لوگ ہیں کہ ایک ایسے ملک کی سیاست سے مذہب کے کردار کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے آئین میں اسلامی شریعت کو سپریم لا قرار دیا گیا، جس میں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کا قیام لازمی قرار دیا گیا اور جس میں ممبران اسمبلی کے لئے آرٹیکل 62 کی رو سے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ پارسا، صادق اور امین ہوں۔

 پاکستانی سیاست میں اگر کوئی مذہب کے کردار سے انکار کرے تو وہ خلاف آئین بات کرتا ہے اور آئین کی رو سے حکومت کا یہ فرض قرار دلوایا گیا ہے کہ وہ اسلامی احکامات کے نفاذ کے لئے کوشش کرے۔

اس لئے جو لوگ پاکستانی سیاست سے مذہب کو نکالنا چاہتے ہیں، انہیں پہلی فرصت میں پاکستان کے آئین کا انکار کرنا ہوگا یا پھر اسے بدلنا ہوگا۔

ایک ہے سیاست میں مذہب کا کردار اور دوسرا ہے سیاسی مقاصد کے لئے اس کا استعمال۔ جس طرح سیاست کو دینی تعلیمات کے مطابق استوار کرنے کے لئے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اسی طرح بطور مسلمان ہمارا فرض بنتا ہے کہ مذہب کو سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کا راستہ روکیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ کیسے ہو کہ کون مذہب کا نام اپنے دینی اور آئینی فریضے کے تحت زبان پر لارہا ہے اور کون اس کو صرف کارڈ کے طور پر ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے۔ ہم اس شخص یا جماعت کے معمولات زندگی اور ترجیحات زندگی کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کے ہاں فرض کا عنصر غالب ہے یا سیاسی اور ذاتی اغراض کا۔

مثلاً اگر ایک شخص نے زندگی دینی تعلیم کے حصول کے لئے وقف کررکھی ہے، وہ اگر شب و روز دین کی تعلیم اور تبلیغ کا کام کررہا ہے تو ہم یہ حسن ظن رکھ سکتے ہیں کہ وہ اگر کسی دینی ایشو سے متعلق حساسیت دکھا رہا ہے تو وہ خلوص نیت سے کر رہا ہوگا لیکن اگر کسی سیاسی شخص کی اپنی زندگی بھی شریعت کے مطابق نہ ہو اور ان کے شب و روز دینی تعلیمات سے خالی ہوں لیکن وہ اپنے کسی کام کو دینی جامہ پہنانے کی کوشش کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مذہب کے کارڈ کو استعمال کررہا ہے۔

مثلاً جنرل ضیا الحق نے اپنے اقتدار کے لئے جس طرح اسلام کے نام کو استعمال کیا تو ہر کوئی سمجھ سکتا تھا کہ وہ مذہب کے کارڈ کو استعمال کررہے تھے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مولانا طارق جمیل اور جاوید احمد غامدی جیسے لوگ مذہب کے کارڈ کو استعمال کررہے ہیں۔

ظاہر ہے یہ دونوں اور اسی طرح کے دیگر لوگ وہ ہیں جنہوں نے ساری زندگیاں دین کے لئے وقف کر رکھی ہیں۔

جہاں تک ختم نبوت کے عقیدے کا تعلق ہے تو اس پر عقیدہ ایمان کی پہلی سیڑھی ہے۔ ہماری سیاست اور صحافت سے بھی یہ ایشو نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ آئین کا حصہ ہے اور اس عقیدے کا اظہار وزیراعظم یا اراکین اسمبلی کے لئے حلف کے دوران لازمی ہے لیکن جتنا توہین رسالت سنگین ترین اور ناقابل معافی جرم ہے اسی طرح کسی انسان پر بغیر ثبوت کے اس کے ارتکاب کی تہمت لگانا بھی سنگین ترین اور ناقابل معافی جرم ہے۔

ان دنوں سب سے زیادہ مذہبی کارڈ خان صاحب اور ان کے ساتھی استعمال کررہے ہیں لیکن ان پر یا ان کی حکومت پر یہ الزام لگانا کہ نعوذ باللہ وہ توہین رسالت کی مرتکب ہوئی ہے، سراسر بے بنیاد ہے۔

عمران خان صاحب مسلمان ہیں اور کسی مسلمان کے بارے میں یہ تصور کرنا بھی جرم ہے کہ وہ دانستہ توہین رسالت کا سوچ سکتا ہے۔ چونکہ آئین اجازت دیتا ہے اس لئے مولانا فضل الرحمٰن صاحب بے شک مذہبی ایشوز کی بنیاد پر سیاست کریں لیکن وہ بغیر ثبوت کے توہین رسالت کے الزامات سے گریز کریں تو بہتر ہوگا۔ میں نے گزشتہ روز بھی اُن سے گزارش کی کہ وہ حکومت کے خلاف توہین رسالت اور ختم نبوت کے کارڈ کو استعمال کرنے سے گریز کریں اور آج کالم کے ذریعے بھی ان سے یہ التجا کررہا ہوں۔

نہ تو عمران خان اور شیخ رشید نے کبھی ہماری سنی تھی اور نہ مولانا نے اپنی سیاست ہمارے مشورے سے کرنی ہے لیکن میں اصولی معاملات میں یوٹرن لینے کا قائل نہیں۔

جن اصولوں کے تحت عمران خان کے اقدام کو غلط کہا، انہی اصولوں کا اطلاق مولانا فضل الرحمٰن کے اسی طرح کے اقدام پر بھی ہوگا کیونکہ جان اللہ نے لینی ہے۔

مزید خبریں :