10 اکتوبر ، 2019
کہانی کا پہلا موڑ، ملتان، 2005، میاں طارق کا جج ارشد ملک کی غیر اخلاقی وڈیو بنانا۔
کہانی کا دوسرا موڑ، نواز شریف کے جانثاروں، جج ارشد ملک کے دوستوں، ناصر بٹ، خرم یوسف، غلام جیلانی، ناصر جنجوعہ کو وڈیو کا علم ہو جانا۔
کہانی کا تیسرا موڑ، پانامہ لیکس، خاندانِ شریفاں کے نام، مریم، حسن، حسین کے جھوٹے ٹی وی انٹرویوز، نواز شریف کی جھوٹی تقریریں، جعلی قطری خط، جعلی ٹرسٹ ڈیڈ، کیلبری فونٹ فراڈ، عدالتی جعلسازیاں، چکربازیاں، سپریم کورٹ کا پہلا فیصلہ، جے آئی ٹی، دوسرا فیصلہ، نواز شریف نااہل، ایون فیلڈ، فلیگ شپ، العزیزیہ، 3ریفرنس احتساب عدالتوں میں۔
کہانی کا چوتھا موڑ، ناصر جنجوعہ اینڈ کمپنی کا جج ارشد ملک کو احتساب عدالت میں جج لگوا کر نواز شریف کے فلیگ شپ، العزیزیہ کیس اس کے پاس لگوانا۔
کہانی کا پانچواں موڑ، جج ارشد ملک کی غیر اخلاقی وڈیو کی بنیاد پر کچھ ناصر جنجوعہ، ناصر بٹ، غلام جیلانی، خرم یوسف اینڈ کمپنی کی بلیک میلنگ، کچھ جج ارشد ملک کا اپنا لالچ، اپنے کردار لیس معاملے اور دونوں دھڑوں کا یوں شیروشکر ہوجانا، اب پتا چل رہا، جج ارشد ملک کا مبینہ طور پر ناصر جنجوعہ، غلام جیلانی، خرم یوسف کو فیصلے سے دو دن پہلے یہ بھی بتا دیا کہ میں میاں صاحب کو کیا سزا دے رہا۔
کہانی کا چھٹا موڑ، ناصر بٹ اینڈ کمپنی کا جج ارشد ملک کی من مرضی کی وڈیوز بنانا، 20لیگیوں کا جج ارشد ملک سے مل لینا۔
کہانی کا ساتواں موڑ، حسین نواز کا مدینہ میں جج سے بھاؤ تاؤ کرنا، نواز شریف کا جاتی امرا میں جج ارشد ملک سے ملاقات۔
کہانی کا آٹھواں موڑ، مریم کا وڈیو بھری پریس کانفرنس کرنا، بتانا کہ جج ارشدملک نے دباؤ میں آکر نواز شریف کو سزا دی، اب اس کا ضمیر ملامت کررہا، اسے ڈراؤنے خواب آرہے۔
کہانی کا نواں موڑ، مریم نواز کے جلسے، جلوس، ریلیاں، ٹویٹ پہ ٹویٹ، مسلسل یہ کہنا، ہمارے پاس اور بھی وڈیوز، آڈیوز، نواز شریف بے گناہ، انہیں قید رکھنا غیر اخلاقی، فوری رہا کیا جائے۔
کہانی کا دسواں موڑ، ایف آئی اے کا وڈیو اصلی یا نقلی پر تحقیق کا آغاز کرنا، شہباز شریف سے پوچھنا، مجھے کچھ پتا نہیں، جو پتا بھتیجی میریم کو، مریم سے پوچھنا، مکرجانا، جو پتا ناصر بٹ کو، ایف آئی اے کا ناصر بٹ کو ڈھونڈنا، پتا چلنا وہ لندن جا چکے۔
کہانی کا گیارہواں موڑ، سپریم کورٹ میں وڈیو کیس لگنا، چیف جسٹس کا کہنا ’’وڈیو سے نواز شریف کو تبھی فائدہ ہوگا، جب کوئی وڈیو عدالت لیکر جائے، وڈیو کو اصلی ثابت کرے‘‘، چیف جسٹس کا کہنا ’’لگ رہا میڈیا کو دکھائی جانے والی وڈیو کا اب کوئی والی وارث نہیں رہا‘‘، جسٹس بندیال بولے ’’ہم کیا کریں، وڈیو کہانی بنانے والے ہی وڈیو سے لاتعلق ہو گئے‘‘، سپریم کورٹ کا وڈیو کیس کے 16اصول وضوابط بنا کر کیس نمٹا دینا۔
کہانی کا بارہواں موڑ، لندن میں ناصر بٹ کا پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر پریس کو بتانا ’’میں نے 7کے قریب آڈیوز، وڈیوز کی 2برطانوی لیبارٹریوں سے فرانزک کروالی، سب اصلی‘‘، رپورٹس میرے پاس، گواہی دوں گا مگر یہیں سے، پاکستان جاؤں گا نہ ایف آئی اے تحقیقات کا سامنا کروں گا۔
کہانی کا تیرہواں موڑ، جج ارشد ملک کے بیان حلفی کی بنیاد پرنامزد ملزمان ناصر جنجوعہ، غلام جیلانی، خرم یوسف کا کیس عدالت میں چلنا، چند پیشیوں کے بعد ملزمان کی ضمانتیں منسوخ ہو جانا، ایف آئی اے کا انہیں گرفتار کر کے تفتیش شروع کردینا۔
کہانی کا چودہواں موڑ، کیس جج شائستہ کنڈی کی عدالت میں جانا، ان کا کیس سے علیحدہ ہو جانا۔
کہانی کا پندرہواں موڑ، صرف 4دنوں میں نہ صرف ناصر جنجوعہ، غلام جیلانی، خرم یوسف کو ایف آئی اے 3رکنی تحقیقی کمیٹی کا عدالت میں یہ کہہ کر بے گناہ قرار دے دینا کہ ثبوت نہیں ملے، بلکہ جج صاحب کا بھی اسی پیشی پر ملزمان کو بری کردینا۔
کہانی کا سولہواں موڑ، جج ارشد ملک کا ڈی جی ایف آئی اے کو درخواست دینا، یہ کیا، تفتیش ہوئی نہ جرح، حقائق دیکھے گئے نہ شواہد، یہ یکطرفہ، بدنیتی پر مبنی فیصلہ، یہ وڈیو کیس ختم کرنے کی سازش، دوبارہ تحقیق، تفتیش کی جائے۔
کہانی کا سترہواں موڑ، کیس نئے جج کی عدالت میں، جج صاحب کا کہنا، ایف آئی اے ٹیم نے نہ صرف سرے سے تحقیق، تفتیش ہی نہ کی، حقائق و شواہد پر چشم پوشی کی بلکہ پچھلے جج صاحب نے بھی آنکھیں، دماغ بند کر کے فیصلہ دیا، پرانی ایف آئی اے ٹیم کیخلاف انکوائری کی جائے، نئی ایف آئی اے ٹیم بنائی جائے۔
کہانی کا اٹھارہواں موڑ، ایف آئی اے کی نئی ٹیم بننا، تفتیش شروع ہونا، ناصر بٹ کے آبائی گھر چھاپہ، بھانجے حمزہ بٹ کی گرفتاری، فیصل شاہین نامی شخص بھی گرفتار، ایف آئی اے ٹیم کا عدالت سے رجوع کرنا کہ ملزمان ناصر جنجوعہ، غلام جیلانی، خرم یوسف کو بھی گرفتار کرنے کی اجاز ت دی جائے، عدالت کا درخواست مستر د کردینا۔
کہانی کا انیسواں موڑ، ملزم خرم یوسف کا لاپتا ہو جانا، خرم یوسف کے برادرِ نسبتی راشد محمود کا اسلام آباد تھانے میں ایف آئی آر مقدمہ درج کراتے ہوئے کہنا، میرا بہنوئی خرم یوسف، بہن، 3بھانجیاں ایک ہفتے سے لاپتا، میرا بہنوئی وڈیو کیس پر پریشان اور ناصر جنجوعہ سے مسلسل رابطے میں تھا، ایسا لگے کہ میرے بہنوئی اور فیملی کو ناصر جنجوعہ نے اغوا کرایا۔
کہانی کا بیسواں موڑ، دوستو، یہی وہ موڑ، جس کیلئے پہلے انیس موڑوں کی تمہید باندھی، اب معلوم ہوا کہ جب ایف آئی اے نے ناصر جنجوعہ، غلام جیلانی، خرم یوسف کو گرفتار کیا، ملزمان نے نہ صرف مبینہ طور پر ایف آئی اے ٹیم کو manageکیا، بلکہ خاتون جج شائشہ کنڈی کو پہلے ہر طرح کا لالچ، منہ مانگی قیمت دینے کی کوشش کی، بات نہ بنی تو اتنا دباؤ ڈالا کہ مجبوراً خاتون جج کیس سے علیحدہ ہو گئیں۔
یہ سب تب پتا چلا جب جج شائستہ کنڈی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کو خط لکھ کر یہ سب بتایا، اسی پر جسٹس اطہر من اللہ خاتون جج شائستہ کنڈی کو تعریفی سرٹیفکیٹ دے چکے لیکن بتانا یہ، نواز شریف، مریم، حمزہ، فواد، احد چیمہ تک جیل میں، شہباز شریف ضمانت پر، حسن، حسین مفرور، حکومت گئے 15مہینے ہوگئے مگر گاڈ فادروں کا نیٹ ورک ابھی بھی ایسا کہ عمران حکومت میں مبینہ طور پر ایف آئی اے کو رام کر لیں، ایماندار جج ہٹوا لیں، نئے جج سے بری ہو جائیں، کیوں، کیسے لگا جسٹس قیوم، جج ارشد ملک کے بعد جج شائستہ کنڈی، مطلب گاڈ فادر پارٹ تھری، واقعی گاڈ فادر حکومت میں ہوں یا جیل میں، رہیں گاڈ فادر ہی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔