11 اکتوبر ، 2019
لندن: نفرت انگیز تقریر کے کیس میں بانی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) الطاف حسین پر برطانیہ کی عدالت نے سخت پابندیاں عائد کرکے ان کی ضمانت کو مشروط کر دیا۔
نفرت انگیز تقریر کے الزام میں ضمانت ختم ہونے پر بانی ایم کیو ایم تیسری بار لندن کے سدک پولیس اسٹیشن میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے تیسری بار بھی لندن پولیس کے سوالوں کے جوابات نہیں دیے جس پر انہیں حراست میں لے لیا گیا۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بانی ایم کیو ایم پر دہشتگردی ایکٹ 2006 کے تحت فرد جرم بھی عائد کی جس کے بعد انہیں ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ پہنچایا گیا۔
ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ کی موجودہ چیف مجسٹریٹ سینیئر ڈسٹرکٹ جج ایما آربوتھ ناٹ نے سماعت کی۔
بانی متحدہ نے جج کے سامنے اپنے نام، تاریخ پیدائش اور ایڈریس کی تصدیق کی، جج نے بانی متحدہ سے پوچھا کہ کیا انہیں معلوم ہے کہ ان پر دہشت گردی کے الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی ہے؟ جج نے الزامات کی تفصیل بانی متحدہ کو پڑھ کر سنائی۔
بانی متحدہ الطاف حسین نے جج کے سامنے خود پر عائد الزامات کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
سماعت کے دوران کراؤن پراسیکیوشن سروس کی وکیل نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ اس کیس کو آگے بڑھانا عوام کے مفاد میں ہے۔
انہوں جج کو بتایا کہ الطاف حسین پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں، انہوں نے کراچی میں موجود اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ میڈیا اداروں کو بند کردیں اور انہیں تشدد پر اکسایا۔ اس کے نتیجے میں املاک کو نقصان پہنچا اور ایک شخص جاں بحق بھی ہوا۔
اس موقع پر جج نے استفسار کیا کہ کیا یہ اپوزیشن جماعت کے سیاست دان ہیں جس پر کراؤن پراسیکیوشن سروس کی وکیل نے ہاں میں جواب دیا۔
اس موقع پر الطاف حسین کے وکیل نے جج کو بتایا کہ ان کے مؤکل نے ہمیشہ انصاف کیلئے جدوجہد کی ہے اور وہ خود پر لگانے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
کراؤن پراسیکیوشن نے اس موقع پر جج سے درخواست کی کہ الطاف حسین کی ضمانت مشروط ہونی چاہیے، انہیں کسی بھی ذرائع سے پاکستان میں سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، عدالت کو چاہیے کہ ان کا پاسپورٹ ضبط کرلے اور کسی بھی عوامی اجتماع سے ان کے خطاب پر پابندی لگائی جائے۔
کراؤن پراسیکیوشن کی درخواست پر جج نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی ضمانت پر سخط شرائط عائد کردیں۔ جج نے کہا کہ الطاف حسین ہر رات اپنی ایبے ویو رہائشگاہ پر قیام کریں گے اور ان پر ’نائٹ کرفیو‘ نافذ ہوگی، وہ عدالت کی اجازت کے بغیر سفر بھی نہیں کرسکیں گے۔
جج نے الطاف حسین کے برطانیہ اور پاکستان میں کسی بھی قسم کے میڈیا فورمز میں شرکت پر بھی پابندی لگادی۔
ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ الطاف حسین پر پاکستان کی سیاسی صورتحال پر کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے پر پابندی ہوگی۔
الطاف حسین کا پاسپورٹ بھی برطانوی پولیس کی تحویل میں رہے گا اور وہ کسی اور سفری دستاویز کیلئے درخواست نہیں دے سکیں گے۔
بانی ایم کیو ایم ہر وقت ایک الیکٹرانک ٹیگ بھی پہنیں گے جبکہ عدالت نے اس مقدمے کی رپورٹنگ پر سیکشن 52 اے بھی نافذ کردی ہے۔
اس موقع پر الطاف حسین نے عدالت کے روبرو اعتراف کیا کہ انہیں ضمانت کی شرائط اچھی طرح سمجھ آگئی ہیں۔ وہ سماعت کے دوران آبدیدہ بھی ہوگئے۔
الطاف حسین کیخلاف مقدمے کی پہلی سماعت یکم نومبر کو سینٹرل کرمنل کورٹ میں ہوگی۔
ذرائع کے مطابق لندن پولیس نے بانی ایم کیو ایم کو سوالوں کے جوابات دینے کا مشورہ دیا تھا تاہم جوابات نہ دینے اور شواہد کی روشنی میں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ان پر فرد جرم عائد کی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہےکہ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے وکلاء کو آج فرد جرم عائد کیے جانے کا خدشہ تھا جس کے باعث ان کی ضمانت کے کاغذ پہلے سے ہی تیار کرلیے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق فرد جرم عائد ہونے کے بعد بانی ایم کیوایم کے خلاف ٹرائل تقریباً 2 ہفتے میں مکمل ہوجائے گا۔
واضح رہےکہ بانی ایم کیو ایم پر 22 اگست 2016 میں تقریر کے ذریعے لوگوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام ہے، لندن پولیس نے انہیں رواں برس 11 جون کو نفرت انگیز تقریر کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور وہ گزشتہ ماہ 12 ستمبر کو بھی ضمانت ختم ہونے پر سدک پولیس اسٹیشن میں پیش ہوئے تھے۔