دنیا
Time 12 اکتوبر ، 2019

افغانستان کی پہلی خاتون میئر معاشرے کی تلخ حقیقت کیلئے ایک مثال

فوٹو: بشکریہ سی جی ٹی این 

27 سالہ زریفا غفاری نے افغانستان کی پہلی کم عمر خاتون میئر بن کے ملک کے لیے مثال قائم کردی اور معاشرے کی تمام تلخ حقیقت اور روایات کو توڑ کر یہ بات واضح کردی کہ عورت کامیابی کی ہر منزل طے کر سکتی ہے۔

زریفا غفاری 26 سال کی عمر میں جولائی 2017 میں افغانستان کے صوبے میدان واردک کے شہر میدان کی پہلی کم عمر خاتون میئر مقرر ہوئیں مگر سرکاری طور پر انہیں اس عہدے کو سنبھالنے میں 9 مہینے کا وقت لگا۔

چائنہ گلوبل نیٹ ورک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان کی پہلی خاتون میئر نے بتایا کہ میئر بننے کے بعد ہی مجھے طالبان کی جانب سے روز دھمکیاں موصول ہوتی تھیں کہ ہم تمہارا قتل کردیں گے، مگر یہ دھمکیاں مجھے نہیں روک سکیں۔

فوٹو: بشکریہ سی جی ٹی این 

زریفا نے بتایا کہ میدان وردک صوبے کے گورنر حاجی غلام نے مجھے بطور میئر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ میں ایک خاتون ہوں، حاجی غلام کا کہنا تھا کہ میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور یہ میری جگہ نہیں ہے، مجھ پر گورنر کے دفتر کے باہر مردوں کے ایک گروپ نے پتھراؤ بھی کیا اور مجھے کہا کہ یہاں واپس مت آنا اور اس کے بعد مجھ پر جھوٹی جعلسازی کے الزامات لگا کر اپنا عہدہ سنبھالنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔

زریفا غفاری کا کہنا تھا کہ یہ میری زندگی کا سب سے افسوس ناک دن تھا کیونکہ مجھے میری جنس کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

افغانستان کی پہلی خاتون میئر کا کہناتھا کہ ان تمام تر واقعات کے بعد میں نے سوچا کہ میں انہیں اب وہ کرکے دکھاؤں جو کہ میں کر سکتی ہوں ، مجھے محسوس ہوا کہ یہ ان پڑھ لوگ ہیں جنہیں کبھی بھی ایک عورت کی طاقت، تعلیم اور حقوق کا اندازہ نہیں ہوسکتا، ان لوگوں نے مجھے 9 مہینے تک گھر میں بیٹھنے پر مجبور کیا مگر میں اپنے حق کے لیے لڑی اور جیت بھی گئی۔

فوٹو: بشکریہ سی جی ٹی این 

زریفا پر جھوٹی جعلسازی کے الزامات کبھی بھی ثابت نہیں ہو سکے، گورنر حاجی غلام کے جانے کے بعد اپریل میں زریفا اپنے میئر کے عہدے کو سنبھالنے کے لیے میدان میں اُتریں۔

خاتون میئر نے جب اپنا عہدہ سنبھالا تو یہ ان کے لیے پہلی جیت تھی مگر ان کا ماننا تھا کہ یہ ان کی جدوجہد کی ابتداء ہے۔ْ

زریفا کا کہنا ہے کہ ایسا معاشرہ جہاں مردوں کو ہمیشہ برتری حاصل ہوتی ہے وہاں رہ کر ان ہی مردوں کے ساتھ کام کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

زریفا غفاری نے اپنی نوکری کے پہلے دن کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے دن میرے دفتر میں موجود تمام مرد ممبران نے میری تقرری کے خلاف واک آؤٹ کیا تھا، یہ لوگ ہر میٹنگ میں دیر سے پہنچتے تھے اور مجھے بے حد نظر انداز بھی کرتے تھے لیکن میں نے انہیں بتایا کہ اگر میں ایک عورت ہوں تو یہ میرا ذاتی معاملہ ہے اور اس بات کو کوئی ہرگزنظر انداز نہیں کر سکتا کہ میں اس آفس کی سربراہ ہوں۔

فوٹو: بشکریہ سی جی ٹی این 

زریفا نے بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی میئر بننے کے بارے میں نہیں سوچا تھا، انہوں نے معاشیات میں ماسٹرز کی تعلیم بھارت سے حاصل کی جس کے بعد وہ اپنے گھر آئیں جہاں ان کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ انہیں مقابلے کا امتحان دینا چاہیے، انہوں نے کبھی بھی سرکاری ملازم بننے کا نہیں سوچا تھا، یہ ہمیشہ سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا کرتی تھیں اور ان کی ایک غیر سرکاری تنظیم بھی ہے جو کہ خواتین کے لیے کام کر رہی ہے۔

انہوں نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کے سرکاری فرمان پر ان کی تقرری کی گئی۔

واضح رہے کہ 2017 میں افغانستان میں پہلی خاتون گورنر ماسومہ مرادی کو زبردستی اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا کیونکہ انہیں اپوزیشن کی جانب سے خاتون ہونے پر بے حد مشکلات پیش آئی تھیں اور ان کی جگہ ایک مرد کو گورنر بنایا گیا تھا۔

دوسری جانب افغانستان کو خواتین کے لیے دنیا کا بدترین ملک قرار دیا جا چکا ہے جہاں خواتین کی خواندگی کی شرح صرف 17 فیصد ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان کے صوبے میدان وردک میں گزشتہ سال صرف 13  لڑکیوں نے اپنا گریجویشن مکمل کیا تھا۔

مزید خبریں :