13 اکتوبر ، 2019
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ اور دھرنے کا کیا نتیجہ نکلے گا اور ملکی سیاست پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں ماضی قریب کے لانگ مارچ اور دھرنوں کے نتائج کا جائزہ لینا ہو گا اور پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ مولانا فضل الرحمٰن کا لانگ مارچ اور دھرنا ماضی سے کس قدر مختلف ہیں۔
حالیہ تاریخ کا ایک بڑا لانگ مارچ 12سال قبل جون2007ء میں جنرل پرویز مشرف کی حکوت کے خلاف اور عدلیہ کی آزادی کے لیے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں ہوا۔
یہ لانگ مارچ اسلام آباد سے لاہور تک تھا۔ اس سے پرویز مشرف کی حکومت کا تختہ تو نہ الٹا جا سکا لیکن پرویز مشرف نے بعد ازاں کئی انٹرویوز میں اس بات کا اعتراف کیا کہ اس لانگ مارچ نے انہیں اور ان کی حکومت کو کمزور کیا اور چیف جسٹس سے استعفیٰ طلب کرنا ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ پھر ایک لانگ مارچ 2014میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف کیا۔ اس کے بعد اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا دیا گیا۔
یہ لانگ مارچ اور دھرنا وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو گرانے اور نئے انتخابات کرانے کے لئے تھا۔ دھرنے کے دوران کئی ایسے مراحل آئے، جب یہ محسوس ہوا کہ اب مسلم لیگ (ن ) حکومت کا قائم رہنا مشکل ہے۔
عمران خان امپائر کی انگلی اٹھنے کا بھی عندیہ دیتے رہے لیکن دھرنا دینے والی دو سیاسی جماعتوں کے سوا باقی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ اور سسٹم کو بچانے کے لئے متحد ہو گئیں۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد خود دستور بھی سسٹم کا محافظ تھا لیکن حکومت اور پارلیمنٹ تو بچ گئے لیکن اس لانگ مارچ اور دھرنے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت سیاسی طور پر کمزور ہوئی اور مسلسل کمزور ہوتی گئی۔ طاقت کے مراکز میں بھی اس کی حمایت کمزور پڑتی گئی۔
پھر پاکستان تحریک انصاف نے پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف 2016ء میں اسلام آباد میں دھرنا دیا اور یہ مطالبہ کیا کہ نواز شریف اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف مستعفی تو نہ ہوئے البتہ دھرنا اس شرط پر ختم کیا گیا کہ پاناما کیس کے فیصلے سے میاں محمد نواز شریف کو وزیراعظم ہائوس سے نکلنا پڑا۔ مذکورہ بالا لانگ مارچز اور دھرنوں کو بے نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پرویز مشرف کی حکومت 2007 کے دھرنے کی وجہ سے نہیں گری لیکن جنرل پرویز مشرف کی گرفت بہت کمزور ہوئی۔
2014کے لانگ مارچ اور دھرنے کی وجہ سے بھی میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو نہیں گرایا جا سکا۔ اس کے بنیادی اسباب یہ تھے کہ ملک کی سیاسی قوتیں پارلیمنٹ اور سسٹم کو بچانے کے لیے آگے آگئی تھیں۔ اور آئین میں بھی کسی غیر آئینی اقدام کی سزا ماضی کی نسبت زیادہ سخت تھی۔
اس کے باوجود میاں محمد نواز شریف کی حکومت پھر سنبھل نہ سکی۔ 2016 ء کے دھرنے کے نتیجے میں پاناما لیکس چلا اور پھر وزیراعظم کے منصب سے میاں نواز شریف کو الگ ہونا پڑا۔
مولانا فضل الرحمٰن سینئر سیاست دان ہیں۔ان کو ادراک ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر طاقت کے مراکز پاکستان میں کس طرح کام کرتے ہیں اور ان کی کیمسٹری کیا ہے۔
تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کا یہ کہنا میرے خیال میں درست نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پاکستان کی سیاست میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن واپس حاصل کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ مولانا مہم جو سیاست دان نہیں ہیں اور وہ اپنی سیاسی پوزیشن کی بحالی کے لیے اپنی سیاست کو داؤ پر نہیں لگائیں گے۔ لانگ مارچ اور دھرنا سیاسی معنوں میں ناکام ہوا تو مولانا کی سیاست ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتی ہے۔
اس تناظر میں ہم مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ اور دھرنے کے نتائج کا اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور دھرنوں میں ملک کی بڑی پرانی اور موثر سیاسی جماعتیں 2014میں میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گئیں اور 2016 میں بھی انہوں نے میاں نواز شریف کی مخالفت یا عمران خان کی حمایت نہیں کی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والی غریب اور نچلے درمیانے طبقے کی اکثریت آبادی بہت زیادہ پریشان ہے اور اس میں نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا ہے بلکہ اس اکثریتی آبادی کی مایوسی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے لئے عوامی سطح پر سیاسی حالات سازگار ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) انکے لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکت کریں یا نہ کریں لیکن وہ اس کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کھڑے ہونے والے کو سیاسی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔
کوئی بھی سیاسی قوت تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت میں آنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ درمیانے اور بالائی طبقات میں تحریک انصاف کی جو سیاسی حمایت رہ گئی ہے، وہ مخالفانہ سیاسی قوتوں کو مزاحمت نہیں دے سکتی۔
کچھ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے حواری کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان میں سیاست اور حکومت مذہبی لوگوں کے پاس جائے حالانکہ یہ مفروضہ حالیہ تاریخ نے کئی مرتبہ غلط ثابت کیا ہے۔ مصر اور دیگر عرب ممالک میں جو کچھ ہوا، زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ مولانا کے پاس اپنی سیاسی طاقت بہت زیادہ ہے۔