15 اکتوبر ، 2019
نوبیل انعام برائے ادب کی ’’بے ادبی‘‘ پر کڑھ رہا تھا کہ سمندر پار آباد ایک پاکستانی دوست نے پوچھا ’’آپ اسٹیفن کنگ کب بن رہے ہیں؟‘‘بس کیا بتاؤں، کیسے دل کے پھپھولے جل اُٹھے۔ دفعتاً انشاءللہ خان کا شعر یاد آیا ؎
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
بیرونِ ملک مقیم دوست دراصل اس مشہور زمانہ امریکی لکھاری کا حوالہ دے رہے تھے جنہیں ان کے پہلے ناول نے ہی کروڑ پتی بنا دیا۔
اسٹیفن کنگ جو کبھی ’’کنگلا‘‘ ہوا کرتا تھا، اسے پہلے ناول سے دو لاکھ ڈالر ملے اور اس کی زندگی سنور گئی۔
آج اسٹیفن کنگ کی دولت کا تخمینہ 400ملین ڈالر لگایا جاتا ہے۔ اسٹیفن کنگ بچپن میں دو بجے تک اسکول میں پڑھنے کے بعد تین بجے سے رات گیارہ تک فیکٹری میں مزدوری کیا کرتا تھا۔
ایک زمانے میں بارہ گھنٹے لانڈری پر کپڑے دھویا کرتا تھا، اس نے پیٹرول پمپ پر ملازمت کی اور پچیس سینٹ فی بوری کے حساب سے آلو کے کھیت میں کام کیا مگر آج اس کی ایک کتاب پر اسے ایک ملین ڈالر سے زیادہ رقم ایڈوانس ملتی ہے اور اس کی کتابوں کی 400ملین کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
اسٹیفن کنگ کی کہانیوں پر بیشمار فلمیں بنیں جن میں سے سب سے مشہور فلم شا شنک ری ڈیمپپشن ہے جس میں مورگن فری مین نے مرکزی کردار ادا کیا۔
اسٹیفن کنگ 21ستمبر 1947ء کو پورٹ لینڈ میں پیدا ہوا۔ وہ بہت چھوٹا تھا کہ اس کے والدین میں علیحدگی ہو گئی۔
اسٹیفن نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد بطور ٹیچر کیریئر کا آغاز کیا، جلد ہی اس نے Tabitha Spruceسے شادی کرلی، اخراجات بڑھ رہے تھے، تنخواہ بہت کم تھی اس لئے لانڈری میں پارٹ ٹائم کام کرنا شروع کر دیا۔
ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے اسٹیفن بتاتا ہے کہ اس کے دو بچے تھے اور وہ اور اس کی بیوی دونوں کالج سے نئے نئے نکلے تھے۔ اس کی بیوی ٹیبی ایک ریسٹورنٹ پر جاب کرتی تھی جہاں شام کی شفٹ میں وہ بھی کام کرنے جاتا تھا۔
اس زمانے میں وہ بالغوں کے رسالوں کے لئے کہانیاں لکھ کر اپنے قلم سے تھوڑا بہت کمانے لگا تھا۔
اسٹیفن کی ماں کچھ کچھ بیمار رہنے لگی تھی۔ ایک روز جب وہ اپنے بچوں کو لے کر ماں سے ملنے گیا تو اس کی ننھی بیٹی کا جسم بخار سے تپ رہا تھا۔
اسے اور اس کی بیوی کو علم تھا کہ اسے اینٹی بایوٹک کی ضرورت ہے مگر ان کے پاس دوا خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔ وہ واپس گھر پہنچے تو ڈاک کے ذریعے موصول ہونے والا ایک لفافہ ان کا منتظر تھا۔
وہ بے ساختہ دعا کرنے لگا کہ یہ گیس یا بجلی وغیرہ کا بل نہ ہو کیونکہ بلوں کے علاوہ اسے ڈاک میں کچھ موصول نہیں ہوتا تھا۔ کوئی اسے خط کیوں لکھتا، سب اسے بھول چکے تھے۔ اس نے لفافہ کھولا تو ایک افسانے کے معاوضے کے طور پر اسے پانچ سو ڈالر کا چیک دکھائی دیا۔
جن دنوں کنگ نے اپنا پہلا ناول ’’کیری‘‘ لکھنا شروع کیا وہ لانڈری پر کام کرتا تھا۔ ان کے گھر میں فون نہیں تھا کیونکہ وہ بل ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اسٹیفن نے پہلے ناول کے چند صفحات ہی لکھے مگر پھر یہ سوچ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیئے، اس کی بیوی نے صفائی کرتے وقت ٹوکری میں یہ صفحات دیکھے اور ترتیب سے اس کی میز پر رکھ دیئے۔
ٹبیتھا نے ایک بار پھر اس کی ہمت بندھائی اور اسے اعتماد دیا کہ وہ ایک اچھا ناول لکھ سکتا ہے۔
اسٹیفن نے پہلا ناول مکمل کیا تو کالج کے زمانے کے دوست بل تھامسن کے ذریعے ایک پبلشر کو بھجوا دیا اور پھر بھول گیا کیونکہ اسے توقع ہی نہ تھی کہ یہ ناول قبول کر لیا جائے گا۔
ایک دن بچوں کو پڑھاتے وقت بتایا گیا کہ اس کی بیوی کی ٹیلیفون کال ہے۔ اس نے سوچا شاید کوئی بری خبر ہوگی مگر ٹبیتھا نے بتایا کہ اس کا ناول بک گیا ہے اور اسے رائلٹی کے طور پر ڈھائی ہزار ڈالر دیئے جائیں گے۔
اس زمانے میں بھی کتاب شائع ہونے کے بعد ہلکے کاغذ پر سستی کتابیں زیادہ تعداد میں شائع کی جاتی تھیں تاکہ کم استطاعت رکھنے والے افراد بھی یہ کتاب خرید سکیں۔
ان سستی کتابوں کو پیپر بیک ایڈیشن کہا جاتا۔ ٹبیتھا نے پوچھا کہ اگر وہ پیپر بیک ایڈیشن کے حقوق بیچ دے تو اسے کتنی رقم مل سکتی ہے۔
سننے میں آ رہا تھا کہ ماریو پوزو کو ناول گاڈ فادر کے پیپر بیک ایڈیشن کے چار لاکھ ڈالر ملے تھے لیکن اسے یقین نہیں تھا کہ اتنی رقم ملنا تو کجا اس کا ناول پیپر بیک ایڈیشن میں چھپے گا بھی یا نہیں۔
ایک اتوار ٹبیتھا بچوں کو لے کر اپنے ماں باپ کے گھر گئی ہوئی تھی اسٹیفن گھر پر اکیلا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ بل تھامسن نے فون کیا تھا۔کیا تم بیٹھے ہوئے ہو؟ بل نے پوچھا۔نہیں! فون کچن کی دیوار پر نصب ہے اور میں دروازے میں کھڑا ہوں، کیا مجھے بیٹھنے کی ضرورت ہے؟ اسٹیفن نے جواب دیا۔ہاں ضرورت پڑ سکتی ہے۔ پیپر بیک ایڈیشن کے حقوق چار لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئے ہیں۔ بل نے بتایا۔
اسٹیفن پر سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ بات کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ بل نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ کیا وہ فون پر موجود ہے۔
اسٹیفن کو یقین نہیں آیا کہ اس نے ٹھیک سے سنا ہے۔ اس لئے اس نے تصدیق کرنے کیلئے ایک بار پھر پوچھا، کیا تم نے چالیس ہزار ڈالر کہا ہے؟بل تھامسن نے کہا، چالیس ہزار نہیں چار لاکھ ڈالر۔ اور معاہدے کے مطابق دو لاکھ ڈالر تمہارے ہیں۔ مبارک ہو۔
اسٹیفن کی ماں اس کے اچھے دن دیکھنے سے پہلے ہی کینسر کے ہاتھوں موت کی بازی ہار چکی تھی مگر اسٹیفن اب کنگ بن چکا تھا،King of Thrils and Chills۔
اس نے نئے ناول لکھنے کیلئے Richard Bachmanکا قلمی نام رکھ لیا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ لوگ ایک ہی مصنف کے قلم سے ایک ہی سال میں دوسری کتاب کو پسند نہیں کریں گے۔ ہمارے ہاں لوگ اسٹیفن کنگ کیوں نہیں بنتے، اس حوالے سے آئندہ کالم میں بات ہوگی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔